❤حافظ محمد عبدالله ❤
رجسٹرڈ ممبر
حضرت طلحہ بن عبید اللہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ مکہ مکرمہ کے باسی اور تجارت پیشہ تھے۔ قریش مکہ کے ہمراہ شام کے مشہور قصبے بصری کے بازار میں مقیم تھے۔ کہ اچانک ایک عیسائی پادری کو لوگوں میں اعلان کرتے سنا کہ تمہارے درمیان اہل حرم میں سے کوئی شخص ہے۔
اتفاق کی بات کہ میں اس کے قریب ہی تھا۔ میں لپک کر اس کی طرف بڑھا
اور کہا: ہاں میں مکہ مکرمہ کا رہنے والا ہوں۔
پادری کہنے لگا: کیا تمہارے ہاں احمد نامی کوئی شخصیت ہے۔
میں نے کہا: کون احمد ؟
وہ کہنے لگا : احمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب وہ اس شہرت کا حامل ہوگا۔ اور وہ آخری نبی ہے۔ وہ مکے کا رہنے والا ہو گا اور وہاں سے ہجرت کر کے کالے پتھروں
کی سرزمین جس میں کھجور کے باغات ہیں جائے گا۔
فَإِيَّاكَ أَنْ تُسْبَقَ إِلَيْهِ يَا فَتَى
اے نوجوان ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کی دعوت کو قبول کرنے میں
دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں ۔“
طلحہ کہتے ہیں کہ اس پادری کی بات میرے دل میں گھر کر گئی۔ میں اپنے اونٹوں کی طرف گیا ان کے اوپر پالان رکھا، ساز و سامان لادا اور واپس وطن کی طرف روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ میری قوم کے کافی لوگ تھے۔ ہمارا قافلہ جلد کے پہنچ گیا۔
میں نے گھر پہنچتے ہی اپنے گھر والوں سے پوچھا:
أَكَانَ مِنْ حَدِيثٍ بَعْدَنَا فِي مَكَّةَ»
کیا ہمارے سفر کے دوران کوئی خاص واقع پیش آیا۔“
انہوں نے کہا کہ ہاں :
قَامَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ تَبِعَهُ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ ) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اور ابو قحافہ کے بیٹے
( ابو بکر صدیق ) نے ان کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
طلحہ رضي الله عنه فرماتے ہیں: میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کو خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بڑے نرم خو بڑے محبوب اور کریم شخص تھے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تاجر تھے۔ حق و انصاف کے خوگر تھے ہم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ان کی مجالس
میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا:
أَحَقًّا مَا يُقَالُ مِنْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَظْهَرَ النُّبُوَّةَ وَأَنَّكَ اتَّبَعْتَه
کیا جو باتیں ہم سن رہے ہیں وہ درست ہیں کہ محمد بن عبد الله ( ﷺ ) نے
نبوت کا اظہار کیا ہے اور آپ نے ان کی پیروی کی ہے اور ان کو مان لیا ہے ۔“
حضرت ابو بکر صدیق رضي الله عنه نے فرمایا : ہاں تم نے جو کچھ سنا ہے وہ درست ہے۔ اور پھر انہوں نے اللہ کے رسول کی باتیں سنانا شروع کر دیں، اور مجھے ترغیب دلائی کہ میں بھی
کا ساتھی بن جاؤں میں نے ان کو پادری کی باتیں سنائیں تو ابوبکر رضي الله عنه کو بڑا تعجب ہوا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ چلو محمد ( ﷺ ) کے پاس چلتے ہیں اور ان کو یہ واقعہ سناتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اور تم بھی اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ.
طلحہ رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کی معیت میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے مجھے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنایا اور مجھے دنیا و آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام
آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام کی دعوت کے لیے کھول دیا۔ میں
نے آپ ﷺ کو بصری کے پادری کا واقعہ سنایا۔
فَسُرَّ بِهَا سُرُورًا بَدَا عَلَى وَجْهِهِ
آپ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے جس کے آثار آپ کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے۔“
فَأَعْلَنْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ شَهَادَةَ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ»
پھر میں نے آپ کے دست حق پرست پر کلمہ شہادت پڑھا۔
اس طرح میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کے ذریعے اسلام لانے والا چوتھا آدمی تھا۔۔۔
حافظ محمد عبداللہ
اتفاق کی بات کہ میں اس کے قریب ہی تھا۔ میں لپک کر اس کی طرف بڑھا
اور کہا: ہاں میں مکہ مکرمہ کا رہنے والا ہوں۔
پادری کہنے لگا: کیا تمہارے ہاں احمد نامی کوئی شخصیت ہے۔
میں نے کہا: کون احمد ؟
وہ کہنے لگا : احمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب وہ اس شہرت کا حامل ہوگا۔ اور وہ آخری نبی ہے۔ وہ مکے کا رہنے والا ہو گا اور وہاں سے ہجرت کر کے کالے پتھروں
کی سرزمین جس میں کھجور کے باغات ہیں جائے گا۔
فَإِيَّاكَ أَنْ تُسْبَقَ إِلَيْهِ يَا فَتَى
اے نوجوان ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس کی دعوت کو قبول کرنے میں
دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں ۔“
طلحہ کہتے ہیں کہ اس پادری کی بات میرے دل میں گھر کر گئی۔ میں اپنے اونٹوں کی طرف گیا ان کے اوپر پالان رکھا، ساز و سامان لادا اور واپس وطن کی طرف روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ میری قوم کے کافی لوگ تھے۔ ہمارا قافلہ جلد کے پہنچ گیا۔
میں نے گھر پہنچتے ہی اپنے گھر والوں سے پوچھا:
أَكَانَ مِنْ حَدِيثٍ بَعْدَنَا فِي مَكَّةَ»
کیا ہمارے سفر کے دوران کوئی خاص واقع پیش آیا۔“
انہوں نے کہا کہ ہاں :
قَامَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ تَبِعَهُ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ
محمد بن عبداللہ ( ﷺ ) نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اور ابو قحافہ کے بیٹے
( ابو بکر صدیق ) نے ان کی تصدیق بھی کر دی ہے۔
طلحہ رضي الله عنه فرماتے ہیں: میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کو خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بڑے نرم خو بڑے محبوب اور کریم شخص تھے۔ اعلیٰ اخلاق و کردار کے مالک تاجر تھے۔ حق و انصاف کے خوگر تھے ہم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ان کی مجالس
میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا:
أَحَقًّا مَا يُقَالُ مِنْ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَظْهَرَ النُّبُوَّةَ وَأَنَّكَ اتَّبَعْتَه
کیا جو باتیں ہم سن رہے ہیں وہ درست ہیں کہ محمد بن عبد الله ( ﷺ ) نے
نبوت کا اظہار کیا ہے اور آپ نے ان کی پیروی کی ہے اور ان کو مان لیا ہے ۔“
حضرت ابو بکر صدیق رضي الله عنه نے فرمایا : ہاں تم نے جو کچھ سنا ہے وہ درست ہے۔ اور پھر انہوں نے اللہ کے رسول کی باتیں سنانا شروع کر دیں، اور مجھے ترغیب دلائی کہ میں بھی
کا ساتھی بن جاؤں میں نے ان کو پادری کی باتیں سنائیں تو ابوبکر رضي الله عنه کو بڑا تعجب ہوا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ چلو محمد ( ﷺ ) کے پاس چلتے ہیں اور ان کو یہ واقعہ سناتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ اور تم بھی اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ.
طلحہ رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کی معیت میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے مجھے قرآن کریم کا کچھ حصہ سنایا اور مجھے دنیا و آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام
آخرت کی خوشخبری دی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے سینے کو اسلام کی دعوت کے لیے کھول دیا۔ میں
نے آپ ﷺ کو بصری کے پادری کا واقعہ سنایا۔
فَسُرَّ بِهَا سُرُورًا بَدَا عَلَى وَجْهِهِ
آپ ﷺ اس سے بہت خوش ہوئے جس کے آثار آپ کے چہرہ اقدس پر نمایاں تھے۔“
فَأَعْلَنْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ شَهَادَةَ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ»
پھر میں نے آپ کے دست حق پرست پر کلمہ شہادت پڑھا۔
اس طرح میں ابو بکر صدیق رضي الله عنه کے ذریعے اسلام لانے والا چوتھا آدمی تھا۔۔۔
حافظ محمد عبداللہ