❤حافظ محمد عبدالله ❤
رجسٹرڈ ممبر
*جرآتوں کا خون*
اعظم طارق شہید
اس درویش منش عالم کی عمر ابھی محض 43 برس تھی۔۔جب وہ چار بار ممبر صوبائی اسمبلی اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر بن چکا تھا۔۔۔
اسکو نامساعد حالات کے باعث چار ماہ روپوش رہنا پڑا۔۔۔جبکہ کل ملا کر قریبا سات سال کال کوٹھڑی میں رہا۔۔16 قاتلانہ حملے ہوئے۔۔۔جن میں لاہور سیشن کورٹ خودکش سے لے کر شاہ پور راکٹ لانچرز حملے تک باطل نے سبھی حربے آزمائے۔۔
اس نے بے نظیر ( جب مرحومہ وزیراعظم تھیں ) کی ملاقات کی خواہش پہ کہا تھا کہ آپ سے میں اس لیئے نہیں ملوں گا کہ ایک تو میں عورت کی حکمرانی کا قائل نہیں۔۔دوسرا مجھے آپ کے عقائد پہ بھی تحفظات ہیں۔۔
اس نے نواز شریف ( جب موصوف وزیراعظم تھے ) کو بھی کہا تھا کہ تمہارے بس میں ہی نہیں کہ تم مجھے نعرہ مستانہ سے روک پاو۔۔تم بناو اسمبلی ہال کے سامنے پھانسی گھاٹ۔۔۔اور کہو کہ اب جو نعرہ لگائے گا اسکو میں پھانسی پر چڑھا دوں گا۔۔تو دیکھو کہ میں کیسا نعرا بلند کر کے اس پہ جھولتا ہوں۔۔
اس نے پرویز مشرف کو بھی عین اس وقت للکارا تھا جب اسکے اقتدار کا سورج سوا نیزے پہ تھا کہ "کون مشرف، کون جمالی۔۔میں خدا کے سوا کسی سے ڈروں تو مشرک نہ ہو جاوں۔۔میں انہیں مچھر کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔۔
وہ ساری زندگی اپنے لبوں پہ صدائے حق لیئے سماج کے نشانے پہ رہا۔۔مگر لمحہ بھر کیلئے بھی نہ تو اس کے پائے استقامت میں لغزش آئی اور نہ اس کے گفتار و کردار میں فرق آیا۔۔۔وہ حق کے حصول، قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل، اسلامی ریاست کی تشکیل اور شعائر اسلام کے اولین ستونوں کی ناموس کیلئے موثر قانون سازی کیلئے سرگرداں رہا۔۔اور اسی جستجو میں 6 اکتوبر 2003ء کی سہہ پہر اسمبلی اجلاس میں جاتے ہوئے گولڑہ موڑ پر اپنے چار ساتھیوں سمیت محض 43 سال کی عمر میں 44 گولیاں کھا کر خون آلود جسم لیئے جب اپنے خالق حقیقی ملا تو اس نے اپنی اولاد کیلئے وراثت میں مسجد کیطرف سے ملا تین مرلہ مکان چھوڑا۔۔اور اسکا کسی بنک میں اکاؤنٹ تک نہ تھا۔
لوگ اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پیارے پاکستان کے حوالہ سے پچھلے بیس سال سے پریشان اور مایوس ہیں کہ ترقی اور عروج کے سفر پہ گامزن اس پاک سرزمین پر دو دہایئوں سے کس آسیب کا سایہ آ پڑا ہے کہ ہر طلوع ہوتا سورج ہماری معاشی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی روایات کا تسلسل سے تنزلی کا منفی پیغام لا رہا ہے۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ جب آپ اس کھوج میں نکلیں تو ایک چکر گولڑہ موڑ کے اس خون آلود ٹول پلازہ کا بھی لگا لیں جو خود تو اب موجود نہیں رہا مگر اس جرآت مند درویش کامقدس خون آج بھی اپنی دلربا مہک کیساتھ انصاف کا متلاشی و منتظر یے۔۔۔
حافظ محمد عبداللہ
اعظم طارق شہید
اس درویش منش عالم کی عمر ابھی محض 43 برس تھی۔۔جب وہ چار بار ممبر صوبائی اسمبلی اور تین بار قومی اسمبلی کا ممبر بن چکا تھا۔۔۔
اسکو نامساعد حالات کے باعث چار ماہ روپوش رہنا پڑا۔۔۔جبکہ کل ملا کر قریبا سات سال کال کوٹھڑی میں رہا۔۔16 قاتلانہ حملے ہوئے۔۔۔جن میں لاہور سیشن کورٹ خودکش سے لے کر شاہ پور راکٹ لانچرز حملے تک باطل نے سبھی حربے آزمائے۔۔
اس نے بے نظیر ( جب مرحومہ وزیراعظم تھیں ) کی ملاقات کی خواہش پہ کہا تھا کہ آپ سے میں اس لیئے نہیں ملوں گا کہ ایک تو میں عورت کی حکمرانی کا قائل نہیں۔۔دوسرا مجھے آپ کے عقائد پہ بھی تحفظات ہیں۔۔
اس نے نواز شریف ( جب موصوف وزیراعظم تھے ) کو بھی کہا تھا کہ تمہارے بس میں ہی نہیں کہ تم مجھے نعرہ مستانہ سے روک پاو۔۔تم بناو اسمبلی ہال کے سامنے پھانسی گھاٹ۔۔۔اور کہو کہ اب جو نعرہ لگائے گا اسکو میں پھانسی پر چڑھا دوں گا۔۔تو دیکھو کہ میں کیسا نعرا بلند کر کے اس پہ جھولتا ہوں۔۔
اس نے پرویز مشرف کو بھی عین اس وقت للکارا تھا جب اسکے اقتدار کا سورج سوا نیزے پہ تھا کہ "کون مشرف، کون جمالی۔۔میں خدا کے سوا کسی سے ڈروں تو مشرک نہ ہو جاوں۔۔میں انہیں مچھر کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتا۔۔
وہ ساری زندگی اپنے لبوں پہ صدائے حق لیئے سماج کے نشانے پہ رہا۔۔مگر لمحہ بھر کیلئے بھی نہ تو اس کے پائے استقامت میں لغزش آئی اور نہ اس کے گفتار و کردار میں فرق آیا۔۔۔وہ حق کے حصول، قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل، اسلامی ریاست کی تشکیل اور شعائر اسلام کے اولین ستونوں کی ناموس کیلئے موثر قانون سازی کیلئے سرگرداں رہا۔۔اور اسی جستجو میں 6 اکتوبر 2003ء کی سہہ پہر اسمبلی اجلاس میں جاتے ہوئے گولڑہ موڑ پر اپنے چار ساتھیوں سمیت محض 43 سال کی عمر میں 44 گولیاں کھا کر خون آلود جسم لیئے جب اپنے خالق حقیقی ملا تو اس نے اپنی اولاد کیلئے وراثت میں مسجد کیطرف سے ملا تین مرلہ مکان چھوڑا۔۔اور اسکا کسی بنک میں اکاؤنٹ تک نہ تھا۔
لوگ اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پیارے پاکستان کے حوالہ سے پچھلے بیس سال سے پریشان اور مایوس ہیں کہ ترقی اور عروج کے سفر پہ گامزن اس پاک سرزمین پر دو دہایئوں سے کس آسیب کا سایہ آ پڑا ہے کہ ہر طلوع ہوتا سورج ہماری معاشی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور معاشرتی روایات کا تسلسل سے تنزلی کا منفی پیغام لا رہا ہے۔۔۔ تو میں عرض کروں گا کہ جب آپ اس کھوج میں نکلیں تو ایک چکر گولڑہ موڑ کے اس خون آلود ٹول پلازہ کا بھی لگا لیں جو خود تو اب موجود نہیں رہا مگر اس جرآت مند درویش کامقدس خون آج بھی اپنی دلربا مہک کیساتھ انصاف کا متلاشی و منتظر یے۔۔۔
حافظ محمد عبداللہ