حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ
المناک، بے ثبات، شنوائی سوز، دلدوز، دلسوز، دلفگار، رنج سے بھرپور ، غموں سے لبریز اور نہ جانے کون کون سی خبریں اس کائنات میں بسنے والوں کا مقدر ہیں، کتنے غم دیکھ لیے، سن لیے، سہہ لیے لیکن کچھ غم، غم نہیں ! دل کا روگ بن جاتے ہیں، آنکھوں کا مینہ بن جاتے ہیں، ذہن کی کھٹک بن جاتے ہیں، دل کی کڑھن بن جاتے ہیں، ہر پل، ہر لمحہ، ہر آن، ہر گھڑی وہ غم ماضی کا حصہ ضرور بن جاتا ہے لیکن حال و مسقبل کو لونی لگا جاتا ہے ، حیاتِ جاوداں کو مستعار کی دیمک لگا جاتا ہے ،
وہ غم پہاڑوں کو سنا دیا جائے تو انہیں بھی پسینہ آجائے ،تاروں کو بتایا جائے تو وہ بھی یک بارگی ٹوٹ گریں، سورج کو دکھایا جائے تو بادلوں کی اوٹ لے ، سحاب سے کہہ دیا جائے تو برسنا بھول جائے لیکن کیا کِیا جائے !!
یہ مکان ہے ہی فانی ، مکین بھی فانی ۔۔
لیکن اس فانی مکان کے کچھ فانی باشندے ، فانی ہوتے ہوئے باقی رہتے ہیں، موت کی آغوش میں جانے بعد بھی امر رہتے ہیں،
دلوں میں زندہ رہتے ہیں، وہ معیار بن جاتے ہیں، اعتماد بن جاتے ہیں ، دل کی قلمرو کے پیشرو بن جاتے ہیں، سلطنتِ حُب کے حبیب ہوجاتے ہیں، دعاؤں پہ قابض ہوجاتے ہیں، آنسوؤں پہ مسلط ہوجاتے ہیں۔۔۔۔
نام میں قاضی لگ جاتا ہے ، ہوتے غازی ہیں ، یہ لوگ فطرتاً رشید ہوتے ہیں، چال میں عبدیت ہوتی ہے لیکن سائے میں بانکپن ہوتا ہے، یہ لوگ کفر کے نادِیۃ پہ خدائی زَبانیۃ ہوتے ہیں۔۔۔
لگتا یوں ہے کہ ارواح کی تخلیق ہوتے ہی، نظامِ عالم کے ترتیب پاتے ہی، خیر اور شر کے پیدا ہوتے ہی، سعادت اور شقاوت کے فیصلے ہوتے ہی، خدا اِنہیں سب کے سامنے سے اعزازاً اٹھا کر اپنے حمایتی لشکر کے اول دستے کا حصہ بنا دیتا ہے اور پھر جب یہ مقدس ماؤں کی گود میں ہوتے ہیں تو خدائی سائے میں پروان پلتے ہیں۔۔۔۔۔۔
آج جب میں لیاقت باغ میں ہزاروں فرزندانِ توحید کے شانہ بشانہ کھڑے اِسی مشہور خدائی لشکر کے ایک عظیم سپوت، حضرت مولانا قاضی عبدالرشید رحمہ اللہ تعالیٰ کے جنازے میں کھڑا تھا، تو سوچ رہا تھا کہ جس خدا کے دین کے لیے یہ شخص تھکن سے چُور ہوا ، امراضِ جسمانی کا ہمرکاب ہوا، خدائے حق کی خاطر خاکی بُتوں سے بِھڑ گیا ،
اکلوتے جنید کو یتیم کرگیا ، مملکت خداداد پاکستان کی اہلسنت والجماعت کی تمام جمعیتوں کو یتیم کر گیا، ہر دم ذکرِ نبی و اصحابِ نبی کی مدح سرائی کرتے کرتے گویا موت سے کہہ گیا
زباں ہو مصروف مدحتِ سرکارِ دوعالــــــــــمﷺ
ایسے میں آ اے اجل! کہاں مر گئی !!
رب العزت نے بھی شاندار ضیافت کی ہوگی، وجدان و تخیل کی آزاد دنیا کہتی ہے
ناشتے کا وقت تھا تو وہ یوں گویا ہوئے ہوں گے یا اللہ ! جنتی ناشتے کو مَن کرتا ہے اور کأسِ مَعین میں زنجبیل مشروب پیش ہوا ہوگا، لحمِ طیر کی لذت سے آشنا ہوئے ہوں گے،
واہ واہ
ظلِّ ممدود کی ملاحت سے مسرور ہوئے ہوں گے، نضرۂ نعیم کی ایک جھلک تو وجہِ مُسفِرۃ پہ دنیا والے بھی دیکھ چکے۔۔۔۔
کہنے کو تو یوں کہنا چاہتا ہوں بزرگوارم ! ہمیں بھی ساتھ لئیے چلتے، لیکن ہر بشر کا وقت متعین ہے، چلیئے یوں کہہ لیتا ہوں
یہ آرزو ہے کہ ہاتھوں میں تیرے ہاتھ رہے
خدا کے ہاں بھی ہمارا تمھارا ساتھ رہے
ابنِ ضیاء٘