❤حافظ محمد عبدالله ❤
رجسٹرڈ ممبر
*سیرت سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا*
نبی کریمﷺ کی براہ راست فیض یافتہ مقدس اور کامیاب جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور ان میں بلند مرتبہ کے حساب بے شمار شخصیات اور باکمال ہستیاں موجود ہیں۔
اس جماعت کا فضل و کمال خداوند کریم نے اپنی مقدس کتاب میں جا بجا ذکر فرمایا ہے اور فرمودات نبویﷺ میں ان کی فضیلتیں بے حساب مذکور ہیں ۔ان حضرات نے اللہ تعالیٰ کے دین کو بلند کرنے کے لیے اور اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں اور ان کا نصب العین اشاعت دین تھا۔
اس مقدس جماعت کے مرد و خواتین دینی کاموں کے لیے شب و روز مصروف کار رہتے تھے۔ مثال کے طور پر سیدہ صفیہ ؓ بنت عبدالمطلب، ام حرامؓ بنت ملحان، ام عمارہؓ انصاریہ اور اسماءؓ بنت یزید انصاریہ (جن کو ام سلمہؓ انصاریہ کہتے ہیں) وغیرہا خواتین نے اسلامی خدامات کی خاطر بڑا عمدہ کردار ادا کیا اور اضطراری حالات میں معاونت کی خاطر مسلمان مردوں کے ساتھ جنگوں میں بھی شمولیت کی۔
اسی طرح دینی ضرورتوں کے لیے حضرت ہند بنت عتبہؓ نے بھی امتیازی خدمات سر انجام دیں۔
*نسبی تشریحات اور قبیلہ قریش میں ان کا مقام*
ان کا نام ہند بنت عتبہ بن عبد شمس ہے۔ یہ سیدنا امیر معاویہؓ کی والدہ محترمہ ہیں۔
حضرت ابو سفیانؓ کی متعدد ازواج تھیں۔ ان میں ہند بنت عتبہؓ بن ربیعہ مشہور اور معروف اور ایک امتیازی مقام کی حامل خاتون ہیں۔
سیدہ ہندؓ کو اللہ تعالیٰ نے خوب فہم و فراست اور اہلیت بخشی تھی۔
مورخین نے ان کے متعلق مندرجہ ذیل صفات ذکر کی ہیں
وکانت من سیدات نساء قریش ذا رای ودھاء وریاسہ فی قومھا
اور علماء نے مزید ان کے حق میں یہ الفاظ بھی تحریر کیئے کہ: وکانت امراہ لھا نفس وانفہ ورأی وعقل۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدہ ہندؓ قریش کی سردار عورتوں میں سے تھی صاحب رائے، زیرک و ہوشمند، خودار اور بڑی عقل مند عورت تھیں اپنی قوم میں اپنی صنف کے لیے رئیس سمجھی جاتی تھیں۔
*قبول اسلام اور پھر اس پر استقامت*
قبول اسلام سے پہلے ہند ؓ بنت عتبہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ بڑی عداوت رکھتی تھیں جس طرح ان کے خاوند ابوسفیان ؓ نے اسلام لانے سے قبل اہل اسلام کے ساتھ بڑے مقابلے اور معرکے قائم کیے، اسی طرح ان کی اہلیہ مذکورہ نے ہر مرحلہ پر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی عناد اور مخالفت قائم رکھی۔ پھر جب اللہ تعالی نے ان کی قسمت کا رخ بدلا ہے اور فتح مکہ ہوئی ہے تو اس موقع پر اپنے خاوند کے اسلام لانے کے ایک دن بعد ہند ؓ بنت عتبہ اسلام لائی ہیں سردار دوعالم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سابق نکاح پر قائم رکھا۔
قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت انسان اسلام لے آئے تو گزشتہ چیزیں سب معاف ہو جاتی ہیں۔ ( ان الاسلام يـهـدم مـا كان قبله) اس آئین اسلام کی رو سے ہند ؓ بنت عتبہ کی بھی سب سابقہ غلطیاں معاف ہو گئیں۔
علماء نے لکھا ہے کہ اسلام لانے کے بعد ہند ؓ بنت عتبہ اپنے دین پر نہایت مستقیم تھیں اور ان کا اسلام نہایت پختہ تھا۔
علامہ ابن اثیر جزری نے *اسد الغابہ* میں علامہ نووی رحمہ اللہ نے "تہذیب الاسماء واللغات" میں اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "البدایہ جلد سابع میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ان کے *حسن اسلام* کی تصدیق فرمائی ہے: *"ان هندا اسلمت يوم الفتح وحسن اسلامها هي أم معاوية بن ابي سفيان اسلمت فى الفتح بعد اسلام زوجها ابى سفيان بليله وحسن اسلامها"*(رضى الله عنها)
(أسد الغابة للجزري ص 562،ج 5،تحت هند بنت عتبه)
*بعد از قبول اسلام بت شکنی کا عجیب واقعہ*
مؤرخین اور محدثین نے اس موقعہ پر ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب سیدہ ہندؓ بنت عتبہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوچکیں تو ان کے گھر میں ایک بت تھا جس کی جاہلیت کے دور میں پرستش کرتی تھیں اس کو ایک کلہاڑا لے کر پاش پاش کردیا۔ ساتھ ساتھ فرماتی تھیں کہ تیری وجہ سے ہم دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے اور فریب خوردہ تھے *لما اسلمت هندؓ جعلت تضرب صنما في بيتها بالقدوم فلزته فلزه فلزه وهي تقول كنا منك فى غرور*
(الطبقات الكبير لابن سعد ص١٧٢ ج ٨ تحت عند بن عتبه بن ربيعه)
*تنبیہ*
سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کے قبول اسلام سے قبل ان کو قدرت کی طرف سے ایک خواب متواتر تین شب آتا رہا۔
اس کے بعد آپ اس خواب کی روشنی میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
*تشریف بیعت اور کلمہ "مرحبا " کا اعزاز*
فتح مکہ کے بعد رسولﷺ کی خدمت اقدس میں مکہ کی اور قریش کی عورتیں حاضر خدمت ہوتی تھیں اور رسولﷺ کی خدمت میں بیعت نبوی کا شرف حاصل کرنے کے لیے معروضات پیش کرتی تھیں۔اس سلسلہ میں حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ (جو اپنے قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں )اپنے خاوند کی اجازت سے رسولﷺ کی خدمت میں نقاب پہن کر حاضر ہوئیں۔
سابقہ احوال کے پیش نظر وہ اپنی جگہ پر بہت خائف تھیں کہ خدا جانے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور میرے حق میں کیا حکم صادر ہوگا۔طبقات ابن سعد میں ہے کہ عورتوں کی بیعت کے لئے حاضری *وادی الطح* میں ہوئی تھی ۔اس سلسلہ میں جب ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ حاضر ہوئیں اور رسولﷺ کی خدمت اقدس میں معروضات پیش کرنے لگیں تو نقاب کھول دیا اور گفتگو شروع کی اور اپنا نام لے کر عرض کرنے لگی کہ میں ہند بنت عتبہ حاضر ہوں رسالت مآبﷺ نے پہچان لیا اور فرمایا *مرحبا بک* (خوش آمدید ) ان مبارک الفاظ کے ساتھ باریابی کی عزت بخشی ۔
(طبقات ابن سعد صفحہ 171 تا 172 جلد 8 تحت ذکر ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ)
*فائدہ*
فتح مکہ کے موقع پر مختلف قبائل قریش سے بے شمار عورتیں رسولﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر بیعت سے مشرف ہوئیں ان میں بنی عبدشمس میں سے ہندؓ بنت عتبہ اپنے قبیلہ کی مشہور خاتون تھیں۔رسولﷺ نے ان کا اسلام قبول فرمالیا۔ بعض روایات کے اعتبار سے یہ بھی مذکور ہے کہ ھندؓ بنت عتبہ نے ازراہِ معذرت رسولﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یا نبی اللہ! اللہ تعالی نے آپ کو معاف فرمایا ہے۔ہم کو بھی گزشتہ واقعات کی معافی فرمائی جائے
(تفسیر البحر المحیط صفحہ 258 جلد 8)
پھر رسولﷺ نے سابقہ خطاؤں اور عداوتوں کے پیش نظر کوئی سرزنش اور تحدید نہیں فرمائی بلکہ ہندؓ بنت عتبہ اور ان کے خاوند حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ دونوں کے ساتھ رسولﷺ نے کمال شفقت کی بنا پر اخلاص اور دوستی و محبت کا اظہار فرمایا اور آپ کا یہ مشفقانہ رویہ ان کے ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔
اس چیز کو علماء نے مندرجہ ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے
فان ابا سفيان وامراته لما اسلما لم يكن رسول الله ﷺ يخيفهما بل اظهر الصفاء والود لهما وكذلك كان الامر من جانبه عليه السلام لهما (رضي الله تعالى عنه)
(تفسیر ابن کثیر الجزء الرابع صفحہ 354 تحت الآیۃ النساء،آخر سورۂ ممتحنہ)
ان تصریحات کی روشنی میں یہ چیز واضح ہو گئی کہ ان دونوں زوجین کو جب رسولﷺ نے کمال شفقت و عنایات سے نوازا ہے تو ان کے حق میں ہتک آمیز جملے اور نازیبا کلمات استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
*موقع ھذا کی گفتگو اور اظہار مودت*
اس کے بعد بخاری شریف کی روایت اور اس کے شروح کے مطابق مندرجہ ذیل گفتگو اس موقعہ پر ہوئی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے روز ہندؓ بن عتبہ آئیں اور عرض کرنے لگی یا رسولﷺ آج سے پہلے زمین پر کوئی ایسا گھرانہ نہیں تھا جو میرے نزدیک رسولﷺ کے گھر سے زیادہ ذلیل اور ناپسند ہو مگر آج صفحہ ہستی پر کوئی ایسا گھرانہ نہیں جو میرے نزدیک رسولﷺ کے خاندان اور گھرانے سے زیادہ محبوب اور معزز ہو تو اس کے جواب میں رسولﷺ نے سیدہ ہندؓ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا اور حلف کے ساتھ اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تو ابھی اس بات میں بڑھے گی یعنی تیرے قلب میں ایمان و یقین جاگزیں ہوگا۔ اور تیری محبت اللہ اور رسولﷺ کے حق میں مزید ہوگی۔اور ان کے ساتھ بغض رکھنے سے تو پوری طرح اعراض کرے گی اور نفرت و عداوت سے تو رجوع کر لے گی۔
*قال وأيضًا والذي نفسي بيده*
یہاں سے معلوم ہوا کہ سیدہ ہندؓ راست گو خاتون تھیں اور نیز واضح ہوا کہ ان کو آنجناب ﷺ کے ساتھ قلبی محبت تھی اور آنجنابﷺ بھی ان کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک فرماتے تھے۔
*واقعہ بیعت النساء اور سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کی معروضات*
جب فتح مکہ ہوچکی تو رسولﷺ کی خدمت اقدس میں اسلام لانے کے بعد قریش مکہ کی عورتیں متعدد بار بیعت کے لیے یکے بعد دیگرے حاضر ہوئیں اور قرآن مجید کی آیت جو سورہ ممتحنہ کے آخر میں ہے ان ایام میں نازل ہو چکی تھی۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَھنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
( آخر سورة الممتحنہ پارہ نمبر ۲۸)
ترجمہ: ”اے نبی ( ﷺ ) جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ نہ کوئی بہتان کی اولاد لاویں گی۔ جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنالیویں اور کسی مشروع بات میں آپﷺ کے خلاف نہ کریں گی تو ان کو بیعت کر لیجئے اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیئے ۔ ضرور اللہ تعالی معاف کرنے والا مہربان ہے ۔( تفسیر حقانی)
اس موقع پر دیگر خواتین کے ساتھ سیدہ ہندؓ بنت عتبہ بھی حاضر خدمت ہوئیں اور قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے مطابق بیعت کی شرائط ان کے سامنے آئیں تو پہلی شرط یہ تھی کہ ان لا يـشـر كـن بـالـلـه شـيـئـا اللہ کے ساتھ وہ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گی۔)
اس وقت سیدہ ہندؓ بنت عتبہ نے عرض کیا کہ ( كـيـف نطـمـع ان تـقبـل مـنـا مـالـم تقبله من الرجال) ہم اس بات کا کس طرح طمع کر سکتی ہیں۔ جو چیز آپ نے مردوں سے قبول نہیں کی وہ ہم سے قبول کر لی جائے گی یعنی جب " شرک کرنا " مردوں کے لیے جائز نہیں رکھا گیا تو ہمیں اس بات کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟ یعنی ہم شرک کے نزدیک نہیں جائیں گی اور اس سے دور رہیں گی۔
پھر رسولﷺ نے سرقہ(چوری) نہ کرنے کی دوسری شرط جب پیش فرمائی تو سیدہ ہندؓ بنت عتبہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے خاوند ابو سفیان ؓ مال کو روک رکھنے والے ہیں اور جو کچھ وہ دیتے ہیں وہ میرے لیے اور میری اولاد کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ تو کیا مجھے اپنے خاوند کے مال سے بقدر ضرورت لے لینا حلال ہے ؟ حضرت ابو سفیان ؓ پاس موجود تھے ، یہ بات سن کر انہوں نے جنابﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ جو کچھ مال اس نے سابقاً لیا ہے یا اب لے گی تو اس کے لیے حلال ہے ، اس کی اسے اجازت ہے۔ رسولﷺ نے ان دونوں کا کلام سماعت فرما کر تبسم فرمایا اور بعض روایات کے اعتبار سے ہندؓ بنت عتبہ کے اس مطالبہ پر خود رسولﷺ نے بقدر کفایت مال لینے کی ہند کو خصوصی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
پھر یہ شرط پیش ہوئی کہ عورتیں بدکاری نہیں کریں گی تو اس پر سیدہ ہندؓ نے بطور استعجاب عرض کیا کہ آیا آزاد شریف عورت بھی ایسا کام کرتی ہے ؟ اس کے بعد یہ شرط پیش فرمائی گئی کہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی تو ہند ؓ نے عجیب و ملیح کلام کے ساتھ عرض خدمت اقدس کیا کہ ہم نے اپنی چھوٹی اولاد کو پرورش کر کے بڑا کیا۔ جب وہ بڑے ہو گئے تو آپ لوگوں نے ان کو میدان بدر میں قتل کر ڈالا۔ (حضرت ابو سفیان ؓ کا لڑکا حنظلہ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا)
ربـيـنـاهـم صغارا وقتلتهم كبارا يوم بدر". یہ نمکین کلام سن کر حضرت عمرؓ جو پاس ہی موجود تھے وہ بھی اور رسولﷺ ہنس پڑے اور تبسم فرمانے لگے۔
اس موقعہ پر آخری چیز عورتوں کے سامنے یہ رکھی گئی تھی کہ معروف یعنی" بہتر بات " میں نافرمانی نہیں کریں گی یعنی اچھے اور مشروع کام میں اطاعت کرنی ہو گی۔ بعض روایات کی بنا پر اس وقت ہند ؓ نے رسالت مابﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اس مجلس میں اطاعت و فرمانبرداری کے لیے ہی حاضر ہوئی ہیں ہمارے دل میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس موقعہ کی گفتگو پر نظر کرنے سے سیدہ ہندؓ کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی عقل مند خوددار اور زیرک خاتون تھیں۔ پھر رسولﷺ کی خدمت میں بڑے اخلاص کے ساتھ کیسے فصیح کلام میں معروضات پیش کیں؟ اور بیعت کنندہ خواتین کی کیسے عمدہ طریق سے نمائندگی کی ؟
اس کے ساتھ ساتھ شرف بیعت کے ساتھ مشرف ہوئیں اور *بار گاہ نبوت* سے "استغفار نبوی" جیسی عظیم فضیلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ (سبحان الله )
*تنبیه*
بیعت کے موقع پر سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کا کلام جو ہم نے اپنی کتابوں سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح ہند کا کلام رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں شیعہ مؤرخین نے بھی نقل کیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر اس کا حوالہ پیش کر دینا کافی ہے۔اہل علم رجوع فرما کر تسلی کر سکتے ہیں ہے *۔
(دو تصنیف محمدبن علی بن طباطبائی( ابن طقطقی الشیعی) تالیف ہذا 1071ھ)*
*ضروری تنبیہ*
چہار دہم صدی کے بعض مشہور مصنفین اس مقام کے مکالمہ بالا کی تفصیلات میں مؤرخ طبری کی روایت کے پیش نظر بعض نازیبا کلمات درج کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ جناب ہندؓ بنت عتبہ نے اس موقعہ پر آنجنابﷺ کی خدمت میں بے باکی سے بڑا گستاخانہ کلام کیا۔ پھر اس مکالمے میں بے ادبی کی عبارت ذکر کی ہے۔
*حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بناء الفاسد علی الفاسد کا نمونہ ہے اور شیعہ کا پھیلایا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے۔*
*ہم نے مندرجہ روایات میں صحیح واقعہ باحوالہ پیش کیا ہے جس میں کوئی گستاخانہ چیز مذکور نہیں۔ مندرجہ حوالہ جات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ طبری پر اعتماد نہ کریں بلکہ خود کچھ عقلمندی سے کام لینا چاہیے ۔ یہ مقام (فتح مکہ) بڑائی اور تکبر کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں تھا بلکہ یہ تو صلح کا موقعہ ہے۔ اس مقام پر کوئی مرد بھی گستاخی اور کج کلامی نہیں کر سکتا تھا چہ جائیکہ ایک عورت جو معافی کی امید لے کر حاضر ہو رہی ہو ، وہ بے باکی کے لہجہ میں کلام کرے*۔ (غور کا مقام ہے ) (فافہم)
مقولہ مشہور ہے کہ: یک مـن عـلـم راده مـن عـقـل بـايـد
اس کے مطابق ہوش مندی سے کام لیتے ہوۓ اس موقعہ کے نشیب و فراز - کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
*جنگ یرموک میں شرکت۔۔ 13ھ*
عورتوں کے مجاہدانہ کارنامے اور ہندؓ کا قول جنگ یرموک میں جس طرح مسلمان مجاہدوں نے اس جنگ عظیم میں اپنے کارنامے پیش کیے اسی طرح اہل اسلام کی خواتین نے اس میں پوری طرح قربانیاں پیش کیں۔ سیدنا ابو سفیانؓ کا پورا گھرانہ اس میدان کارزار میں حاضر تھا۔ خود حضرت ابو سفیانؓ حاضر تھے ۔ حضرت ابو سفیانؓ کے دونوں فرزند سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اور سیدنا معاویہؓ بن ابی سفیانؓ ان کی زوجہ ہندؓ بنت عتبہ ان کی لڑکی جویریہؓ بنت ابی سفیانؓ اور پھر اس جویریہؓ کا زوج (حضرت ابو سفیان کا داماد) یہ تمام حضرات اس میدان میں اسلام کی خاطر قربانی پیش کرنے کے لیے حاضر تھے ۔
اس موقع کا قلیل سا تذکرہ حضرت ہندؓ بنت عقبہ کے متعلق یہاں بیان کیا جا تا ہے ۔
مورخین نے لکھا ہے کہ اہل اسلام کی عورتیں جنگ یرموک میں شریک ہوئیں اور ان اضطراری حالات میں قتال شدید میں حصہ لیا۔ حضرت ہندؓ مخالفین اسلام رومیوں کے قتال کے لیے مسلمانوں کو قال پر ترغیب دلاتی تھیں اور دشمنوں کے خلاف تحریض کرتی تھیں۔ بعض ہنگامی حالات میں جوش دلاتے ہوۓ۔
سیدہ ہندؓ فرماتی تھیں کہ "اے مسلمانو! ان غیر مختونوں کو اپنی تیغوں سے ٹکڑے کر ڈالو۔
" تـقـول عـضـد والـغـلـفـان بـسـيـوفـكـم
اسلام میں ان کی نہایت شاندار خدمات ہیں جو انہوں نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود سرانجام دیں اور میدان کارزار میں اپنے زوج سمیت شریک ہوئیں۔ یہ سب کچھ اعلاء کلمتہ الحق کی خاطر اور دین متین کی اشاعت کے لیے تھا۔
*روایت حدیث*
صحابہ کرامؓ کے دور میں یہ چیز مروج تھی کہ سید الکونینﷺ کے فرامین و اقوال اور آپ کے اعمال کو صحابہ کرامؓ” ایک دو سرے سے نقل فرمایا کرتے تھے اور اس کو ایک نیکی اور سعادت سمجھ کر سرانجام دیا کرتے تھے ۔ یہی چیز آگے امت مسلمہ تک دین کے پہنچنے کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس سلسلہ میں حضرت ہندؓ بنت عقبہ سے بھی نقل روایت کا سلسلہ محدثین کے نزدیک ثابت ہے۔
محدثین لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سیدہ ہندؓ سے روایت نقل فرمائی ہے اور ان کے فرزند سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ماں (سیدہ ہندؓ بنت عتبہ ) سے حدیث نقل کی ہے۔
*وفات*
سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ جنگ یرموک سے واپسی پر مدینہ طیبہ میں تشریف لائیں اور پہلے سے مدینہ طیبہ ہی میں ان کا قیام تھا اور ان کے زوج سیدنا ابو سفیان ؓ بھی مدینہ منورہ میں ہی مقیم ہو چکے تھے۔ عمر کا آخری حصه اسی مقدس شهر میں پورا کیا اور اپنے خاوند سے پہلے ان کا مدینہ منورہ ہی میں 14ھ میں انتقال ہوا ۔ (اگرچہ ان کی وفات کے سلسلہ میں بعض دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں مگر مشہور قول کے مطابق 14ھ ہی ہے ) ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جس روز سیدنا ابوبکرؓ صدیق کے والد شریف حضرت ابو قحافہ ؓ نے وفات پائی اس روز حضرت ہندؓ بنت عتبہ کا بھی انتقال ہوا۔
" ومـاتـت يـوم مـات ابوقحافه" في سنه اربع عشره وهي ام معاوية بن ابي سفيان ؓ ".
*چند اہم گزارشات*
*سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کے متعلق مختصر طور پر ذیل میں چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں جو سابقہ عنوانات کے خلاصہ کے طور پر حاضر خدمت ہیں۔*
1) سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کی رشتہ داری کا تعلق رسولﷺ کے مبارک خاندان کے ساتھ یہ ہے کہ سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان ؓ ام المومنین ہیں اور سیدہ ام حبیبہؓ کے والد حضرت ابو سفیان ؓ حضرت ہند کے زوج ہیں۔ تو سیدہ ہند ؓ ام حبیبہ ؓ کے والد کی زوجہ ہیں ، اس طرح سے رشتہ داری کا دائمی تعلق موجود ہے۔
2) سیدہ ہندؓ قبیلہ قریش کی سردار اور عقل مند عورتوں میں سے تھیں اور اپنے قبیلہ کی خواتین میں ایک نمایاں حیثیت کی حامل تھیں ۔
3). قریش مکہ کی باعزت خواتین کے ساتھ مل کر مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان کا اسلام منظور و مقبول ہوا۔ اور سابقہ خطاؤں کی معافی کا سامان ہو گیا۔
4). ایمان و اسلام کی روشنی سے جب سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ کا قلب منور ہوا تو خود تراشیدہ خداؤں کو اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر ڈالا اور مسئلہ توحید کی اپنے کردار و عمل سے تصدیق کر دی۔
5). پھر رسولﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئیں اور ان کو آنجناب ﷺ کی جانب سے *مرحبا* کا اعزاز نصیب ہوا اور *خوش آمدید* کے کلمات سے سرفراز ہوئیں۔
6). نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں انہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ اظہار مودت کیا اور ان کو جواب میں ازدیاد محبت کی بشارت حاصل ہوئی جو ان کے حق میں خوش نصیبی کی علامت ہے اور خوش بختی کی دلیل ہے ۔
7). پھر ان کو دیگر خواتین کی معیت میں بیعت نبویﷺ کا *شرف عظیم* حاصل ہوا جو ایک نعمت غیر مترقبہ ہے اور اخروی نجات کے لیے بہترین زریعہ ہے۔
8). بیعت کے بعد ان کو اپنے زوج کے مال سے بقدر ضرورت مصارف کی خصوصی اجازت فرمائی گئی۔
9). اسلام کے احیاء اور دین متین کی اشاعت کے لیے ان کو اپنے گھرانے سمیت اسلامی جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ ان کے اخلاص ایمان کی واضح دلیل ہے ۔
10). احادیث نبویﷺ کو نقل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا یہ بھی ایک مستقل کار خیر ہے، اس میں بھی سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ نے حصہ لیا اور اشاعت دین و تبلیغ مذہب کے ثواب میں شامل ہوئیں۔
یہ تمام چیزیں سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ کی دیانت و امانت، صداقت و شرافت اور ایمان کی پختگی کی واضح علامات ہیں ۔ (رضی اللہ تعالی عنہا)
اسلام کی ایسی نامور خواتین کو ان کی جاہلی دور کی خطاؤں اور لغزشوں کے پیش نظر برے القاب کے ساتھ یاد کرنا اور نازیبا کلمات سے ذکر کرنا مسلمانوں کے لیے ہرگز زیبا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
یعنی ” ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام گنہگاری ہے، جو کوئی توبہ نہ کرے وہی ہیں ظلم کرنے والے"۔
اللہ تعالیٰ نے جب ان کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی تو ان کی سابقہ تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا اور جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔
قوله تعالى: *ان الحسنات يذهبن السيئات*
یعنی " ضرور نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں"۔
اور ارشاد نبوی ﷺ ہے: ان الاسلام يـهـدم مـا كـان قـبـلـه
یعنی " اسلام لانے سے سابقہ چیزیں ختم ہو جاتی ہیں اور ساقط ہو جاتی ہیں"۔
نیز سردار دو عالمﷺ کا امت مسلمہ کے لیے فرمان ہے : *اذكـروا مـوتـا كـم بـالـخـيـر* (یعنی اپنے موتی(مردوں) کو خیر کے ساتھ یاد کیا کرو)
نیز رسولﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ *اذا ذکر اصحابی فامسكوا* یعنی جب میرے صحابہؓ کا ذکر آئے تو اپنی زبان کو روک لو۔ یعنی برائی سے یاد نہ کرو۔
*اس بنا پر بھی حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کو خیر کے بغیر کسی دوسری چیز کے ساتھ یاد نہیں کرنا چاہیے ۔ ان کی خوبیوں کو ذکر کرنا مناسب ہے اور خامیوں کو نظر انداز کرنا لازم ہے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ کے حق میں علمائے عقائد نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ *لانـذكـرهـم الابـخير*۔ یعنی ہم ان کو خیر سے ہی یاد کرتے ہیں۔*
ان فرمودات کے پیش نظر سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کو بھی خیر کے ساتھ یاد کرنا چاہیے ۔
اسلام ہمیں یہی ہدایات دیتا ہے۔
❤حافظ محمد عبدالله ❤
نبی کریمﷺ کی براہ راست فیض یافتہ مقدس اور کامیاب جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور ان میں بلند مرتبہ کے حساب بے شمار شخصیات اور باکمال ہستیاں موجود ہیں۔
اس جماعت کا فضل و کمال خداوند کریم نے اپنی مقدس کتاب میں جا بجا ذکر فرمایا ہے اور فرمودات نبویﷺ میں ان کی فضیلتیں بے حساب مذکور ہیں ۔ان حضرات نے اللہ تعالیٰ کے دین کو بلند کرنے کے لیے اور اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں اور ان کا نصب العین اشاعت دین تھا۔
اس مقدس جماعت کے مرد و خواتین دینی کاموں کے لیے شب و روز مصروف کار رہتے تھے۔ مثال کے طور پر سیدہ صفیہ ؓ بنت عبدالمطلب، ام حرامؓ بنت ملحان، ام عمارہؓ انصاریہ اور اسماءؓ بنت یزید انصاریہ (جن کو ام سلمہؓ انصاریہ کہتے ہیں) وغیرہا خواتین نے اسلامی خدامات کی خاطر بڑا عمدہ کردار ادا کیا اور اضطراری حالات میں معاونت کی خاطر مسلمان مردوں کے ساتھ جنگوں میں بھی شمولیت کی۔
اسی طرح دینی ضرورتوں کے لیے حضرت ہند بنت عتبہؓ نے بھی امتیازی خدمات سر انجام دیں۔
*نسبی تشریحات اور قبیلہ قریش میں ان کا مقام*
ان کا نام ہند بنت عتبہ بن عبد شمس ہے۔ یہ سیدنا امیر معاویہؓ کی والدہ محترمہ ہیں۔
حضرت ابو سفیانؓ کی متعدد ازواج تھیں۔ ان میں ہند بنت عتبہؓ بن ربیعہ مشہور اور معروف اور ایک امتیازی مقام کی حامل خاتون ہیں۔
سیدہ ہندؓ کو اللہ تعالیٰ نے خوب فہم و فراست اور اہلیت بخشی تھی۔
مورخین نے ان کے متعلق مندرجہ ذیل صفات ذکر کی ہیں
وکانت من سیدات نساء قریش ذا رای ودھاء وریاسہ فی قومھا
اور علماء نے مزید ان کے حق میں یہ الفاظ بھی تحریر کیئے کہ: وکانت امراہ لھا نفس وانفہ ورأی وعقل۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدہ ہندؓ قریش کی سردار عورتوں میں سے تھی صاحب رائے، زیرک و ہوشمند، خودار اور بڑی عقل مند عورت تھیں اپنی قوم میں اپنی صنف کے لیے رئیس سمجھی جاتی تھیں۔
*قبول اسلام اور پھر اس پر استقامت*
قبول اسلام سے پہلے ہند ؓ بنت عتبہ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ بڑی عداوت رکھتی تھیں جس طرح ان کے خاوند ابوسفیان ؓ نے اسلام لانے سے قبل اہل اسلام کے ساتھ بڑے مقابلے اور معرکے قائم کیے، اسی طرح ان کی اہلیہ مذکورہ نے ہر مرحلہ پر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی عناد اور مخالفت قائم رکھی۔ پھر جب اللہ تعالی نے ان کی قسمت کا رخ بدلا ہے اور فتح مکہ ہوئی ہے تو اس موقع پر اپنے خاوند کے اسلام لانے کے ایک دن بعد ہند ؓ بنت عتبہ اسلام لائی ہیں سردار دوعالم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سابق نکاح پر قائم رکھا۔
قاعدہ یہ ہے کہ جس وقت انسان اسلام لے آئے تو گزشتہ چیزیں سب معاف ہو جاتی ہیں۔ ( ان الاسلام يـهـدم مـا كان قبله) اس آئین اسلام کی رو سے ہند ؓ بنت عتبہ کی بھی سب سابقہ غلطیاں معاف ہو گئیں۔
علماء نے لکھا ہے کہ اسلام لانے کے بعد ہند ؓ بنت عتبہ اپنے دین پر نہایت مستقیم تھیں اور ان کا اسلام نہایت پختہ تھا۔
علامہ ابن اثیر جزری نے *اسد الغابہ* میں علامہ نووی رحمہ اللہ نے "تہذیب الاسماء واللغات" میں اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے "البدایہ جلد سابع میں مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ان کے *حسن اسلام* کی تصدیق فرمائی ہے: *"ان هندا اسلمت يوم الفتح وحسن اسلامها هي أم معاوية بن ابي سفيان اسلمت فى الفتح بعد اسلام زوجها ابى سفيان بليله وحسن اسلامها"*(رضى الله عنها)
(أسد الغابة للجزري ص 562،ج 5،تحت هند بنت عتبه)
*بعد از قبول اسلام بت شکنی کا عجیب واقعہ*
مؤرخین اور محدثین نے اس موقعہ پر ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب سیدہ ہندؓ بنت عتبہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوچکیں تو ان کے گھر میں ایک بت تھا جس کی جاہلیت کے دور میں پرستش کرتی تھیں اس کو ایک کلہاڑا لے کر پاش پاش کردیا۔ ساتھ ساتھ فرماتی تھیں کہ تیری وجہ سے ہم دھوکہ میں پڑے ہوئے تھے اور فریب خوردہ تھے *لما اسلمت هندؓ جعلت تضرب صنما في بيتها بالقدوم فلزته فلزه فلزه وهي تقول كنا منك فى غرور*
(الطبقات الكبير لابن سعد ص١٧٢ ج ٨ تحت عند بن عتبه بن ربيعه)
*تنبیہ*
سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کے قبول اسلام سے قبل ان کو قدرت کی طرف سے ایک خواب متواتر تین شب آتا رہا۔
اس کے بعد آپ اس خواب کی روشنی میں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
*تشریف بیعت اور کلمہ "مرحبا " کا اعزاز*
فتح مکہ کے بعد رسولﷺ کی خدمت اقدس میں مکہ کی اور قریش کی عورتیں حاضر خدمت ہوتی تھیں اور رسولﷺ کی خدمت میں بیعت نبوی کا شرف حاصل کرنے کے لیے معروضات پیش کرتی تھیں۔اس سلسلہ میں حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ (جو اپنے قبیلے کی ایک معزز خاتون تھیں )اپنے خاوند کی اجازت سے رسولﷺ کی خدمت میں نقاب پہن کر حاضر ہوئیں۔
سابقہ احوال کے پیش نظر وہ اپنی جگہ پر بہت خائف تھیں کہ خدا جانے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور میرے حق میں کیا حکم صادر ہوگا۔طبقات ابن سعد میں ہے کہ عورتوں کی بیعت کے لئے حاضری *وادی الطح* میں ہوئی تھی ۔اس سلسلہ میں جب ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ حاضر ہوئیں اور رسولﷺ کی خدمت اقدس میں معروضات پیش کرنے لگیں تو نقاب کھول دیا اور گفتگو شروع کی اور اپنا نام لے کر عرض کرنے لگی کہ میں ہند بنت عتبہ حاضر ہوں رسالت مآبﷺ نے پہچان لیا اور فرمایا *مرحبا بک* (خوش آمدید ) ان مبارک الفاظ کے ساتھ باریابی کی عزت بخشی ۔
(طبقات ابن سعد صفحہ 171 تا 172 جلد 8 تحت ذکر ہندؓ بنت عتبہ بن ربیعہ)
*فائدہ*
فتح مکہ کے موقع پر مختلف قبائل قریش سے بے شمار عورتیں رسولﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر بیعت سے مشرف ہوئیں ان میں بنی عبدشمس میں سے ہندؓ بنت عتبہ اپنے قبیلہ کی مشہور خاتون تھیں۔رسولﷺ نے ان کا اسلام قبول فرمالیا۔ بعض روایات کے اعتبار سے یہ بھی مذکور ہے کہ ھندؓ بنت عتبہ نے ازراہِ معذرت رسولﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ یا نبی اللہ! اللہ تعالی نے آپ کو معاف فرمایا ہے۔ہم کو بھی گزشتہ واقعات کی معافی فرمائی جائے
(تفسیر البحر المحیط صفحہ 258 جلد 8)
پھر رسولﷺ نے سابقہ خطاؤں اور عداوتوں کے پیش نظر کوئی سرزنش اور تحدید نہیں فرمائی بلکہ ہندؓ بنت عتبہ اور ان کے خاوند حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ دونوں کے ساتھ رسولﷺ نے کمال شفقت کی بنا پر اخلاص اور دوستی و محبت کا اظہار فرمایا اور آپ کا یہ مشفقانہ رویہ ان کے ساتھ ہمیشہ قائم رہا۔
اس چیز کو علماء نے مندرجہ ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے
فان ابا سفيان وامراته لما اسلما لم يكن رسول الله ﷺ يخيفهما بل اظهر الصفاء والود لهما وكذلك كان الامر من جانبه عليه السلام لهما (رضي الله تعالى عنه)
(تفسیر ابن کثیر الجزء الرابع صفحہ 354 تحت الآیۃ النساء،آخر سورۂ ممتحنہ)
ان تصریحات کی روشنی میں یہ چیز واضح ہو گئی کہ ان دونوں زوجین کو جب رسولﷺ نے کمال شفقت و عنایات سے نوازا ہے تو ان کے حق میں ہتک آمیز جملے اور نازیبا کلمات استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
*موقع ھذا کی گفتگو اور اظہار مودت*
اس کے بعد بخاری شریف کی روایت اور اس کے شروح کے مطابق مندرجہ ذیل گفتگو اس موقعہ پر ہوئی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے روز ہندؓ بن عتبہ آئیں اور عرض کرنے لگی یا رسولﷺ آج سے پہلے زمین پر کوئی ایسا گھرانہ نہیں تھا جو میرے نزدیک رسولﷺ کے گھر سے زیادہ ذلیل اور ناپسند ہو مگر آج صفحہ ہستی پر کوئی ایسا گھرانہ نہیں جو میرے نزدیک رسولﷺ کے خاندان اور گھرانے سے زیادہ محبوب اور معزز ہو تو اس کے جواب میں رسولﷺ نے سیدہ ہندؓ کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا اور حلف کے ساتھ اس کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا تو ابھی اس بات میں بڑھے گی یعنی تیرے قلب میں ایمان و یقین جاگزیں ہوگا۔ اور تیری محبت اللہ اور رسولﷺ کے حق میں مزید ہوگی۔اور ان کے ساتھ بغض رکھنے سے تو پوری طرح اعراض کرے گی اور نفرت و عداوت سے تو رجوع کر لے گی۔
*قال وأيضًا والذي نفسي بيده*
یہاں سے معلوم ہوا کہ سیدہ ہندؓ راست گو خاتون تھیں اور نیز واضح ہوا کہ ان کو آنجناب ﷺ کے ساتھ قلبی محبت تھی اور آنجنابﷺ بھی ان کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک فرماتے تھے۔
*واقعہ بیعت النساء اور سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کی معروضات*
جب فتح مکہ ہوچکی تو رسولﷺ کی خدمت اقدس میں اسلام لانے کے بعد قریش مکہ کی عورتیں متعدد بار بیعت کے لیے یکے بعد دیگرے حاضر ہوئیں اور قرآن مجید کی آیت جو سورہ ممتحنہ کے آخر میں ہے ان ایام میں نازل ہو چکی تھی۔
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَھنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
( آخر سورة الممتحنہ پارہ نمبر ۲۸)
ترجمہ: ”اے نبی ( ﷺ ) جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گی اور چوری نہ کریں گی اور زنا نہ کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ نہ کوئی بہتان کی اولاد لاویں گی۔ جس کو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنالیویں اور کسی مشروع بات میں آپﷺ کے خلاف نہ کریں گی تو ان کو بیعت کر لیجئے اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیئے ۔ ضرور اللہ تعالی معاف کرنے والا مہربان ہے ۔( تفسیر حقانی)
اس موقع پر دیگر خواتین کے ساتھ سیدہ ہندؓ بنت عتبہ بھی حاضر خدمت ہوئیں اور قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے مطابق بیعت کی شرائط ان کے سامنے آئیں تو پہلی شرط یہ تھی کہ ان لا يـشـر كـن بـالـلـه شـيـئـا اللہ کے ساتھ وہ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گی۔)
اس وقت سیدہ ہندؓ بنت عتبہ نے عرض کیا کہ ( كـيـف نطـمـع ان تـقبـل مـنـا مـالـم تقبله من الرجال) ہم اس بات کا کس طرح طمع کر سکتی ہیں۔ جو چیز آپ نے مردوں سے قبول نہیں کی وہ ہم سے قبول کر لی جائے گی یعنی جب " شرک کرنا " مردوں کے لیے جائز نہیں رکھا گیا تو ہمیں اس بات کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟ یعنی ہم شرک کے نزدیک نہیں جائیں گی اور اس سے دور رہیں گی۔
پھر رسولﷺ نے سرقہ(چوری) نہ کرنے کی دوسری شرط جب پیش فرمائی تو سیدہ ہندؓ بنت عتبہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے خاوند ابو سفیان ؓ مال کو روک رکھنے والے ہیں اور جو کچھ وہ دیتے ہیں وہ میرے لیے اور میری اولاد کے لیے کفایت نہیں کرتا۔ تو کیا مجھے اپنے خاوند کے مال سے بقدر ضرورت لے لینا حلال ہے ؟ حضرت ابو سفیان ؓ پاس موجود تھے ، یہ بات سن کر انہوں نے جنابﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ جو کچھ مال اس نے سابقاً لیا ہے یا اب لے گی تو اس کے لیے حلال ہے ، اس کی اسے اجازت ہے۔ رسولﷺ نے ان دونوں کا کلام سماعت فرما کر تبسم فرمایا اور بعض روایات کے اعتبار سے ہندؓ بنت عتبہ کے اس مطالبہ پر خود رسولﷺ نے بقدر کفایت مال لینے کی ہند کو خصوصی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔
پھر یہ شرط پیش ہوئی کہ عورتیں بدکاری نہیں کریں گی تو اس پر سیدہ ہندؓ نے بطور استعجاب عرض کیا کہ آیا آزاد شریف عورت بھی ایسا کام کرتی ہے ؟ اس کے بعد یہ شرط پیش فرمائی گئی کہ اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی تو ہند ؓ نے عجیب و ملیح کلام کے ساتھ عرض خدمت اقدس کیا کہ ہم نے اپنی چھوٹی اولاد کو پرورش کر کے بڑا کیا۔ جب وہ بڑے ہو گئے تو آپ لوگوں نے ان کو میدان بدر میں قتل کر ڈالا۔ (حضرت ابو سفیان ؓ کا لڑکا حنظلہ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا)
ربـيـنـاهـم صغارا وقتلتهم كبارا يوم بدر". یہ نمکین کلام سن کر حضرت عمرؓ جو پاس ہی موجود تھے وہ بھی اور رسولﷺ ہنس پڑے اور تبسم فرمانے لگے۔
اس موقعہ پر آخری چیز عورتوں کے سامنے یہ رکھی گئی تھی کہ معروف یعنی" بہتر بات " میں نافرمانی نہیں کریں گی یعنی اچھے اور مشروع کام میں اطاعت کرنی ہو گی۔ بعض روایات کی بنا پر اس وقت ہند ؓ نے رسالت مابﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اس مجلس میں اطاعت و فرمانبرداری کے لیے ہی حاضر ہوئی ہیں ہمارے دل میں نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اس موقعہ کی گفتگو پر نظر کرنے سے سیدہ ہندؓ کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی عقل مند خوددار اور زیرک خاتون تھیں۔ پھر رسولﷺ کی خدمت میں بڑے اخلاص کے ساتھ کیسے فصیح کلام میں معروضات پیش کیں؟ اور بیعت کنندہ خواتین کی کیسے عمدہ طریق سے نمائندگی کی ؟
اس کے ساتھ ساتھ شرف بیعت کے ساتھ مشرف ہوئیں اور *بار گاہ نبوت* سے "استغفار نبوی" جیسی عظیم فضیلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ (سبحان الله )
*تنبیه*
بیعت کے موقع پر سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کا کلام جو ہم نے اپنی کتابوں سے ذکر کیا ہے۔اسی طرح ہند کا کلام رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں شیعہ مؤرخین نے بھی نقل کیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر اس کا حوالہ پیش کر دینا کافی ہے۔اہل علم رجوع فرما کر تسلی کر سکتے ہیں ہے *۔
(دو تصنیف محمدبن علی بن طباطبائی( ابن طقطقی الشیعی) تالیف ہذا 1071ھ)*
*ضروری تنبیہ*
چہار دہم صدی کے بعض مشہور مصنفین اس مقام کے مکالمہ بالا کی تفصیلات میں مؤرخ طبری کی روایت کے پیش نظر بعض نازیبا کلمات درج کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ جناب ہندؓ بنت عتبہ نے اس موقعہ پر آنجنابﷺ کی خدمت میں بے باکی سے بڑا گستاخانہ کلام کیا۔ پھر اس مکالمے میں بے ادبی کی عبارت ذکر کی ہے۔
*حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور بناء الفاسد علی الفاسد کا نمونہ ہے اور شیعہ کا پھیلایا ہوا جھوٹ اور بہتان ہے۔*
*ہم نے مندرجہ روایات میں صحیح واقعہ باحوالہ پیش کیا ہے جس میں کوئی گستاخانہ چیز مذکور نہیں۔ مندرجہ حوالہ جات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ طبری پر اعتماد نہ کریں بلکہ خود کچھ عقلمندی سے کام لینا چاہیے ۔ یہ مقام (فتح مکہ) بڑائی اور تکبر کا مظاہرہ کرنے کا موقع نہیں تھا بلکہ یہ تو صلح کا موقعہ ہے۔ اس مقام پر کوئی مرد بھی گستاخی اور کج کلامی نہیں کر سکتا تھا چہ جائیکہ ایک عورت جو معافی کی امید لے کر حاضر ہو رہی ہو ، وہ بے باکی کے لہجہ میں کلام کرے*۔ (غور کا مقام ہے ) (فافہم)
مقولہ مشہور ہے کہ: یک مـن عـلـم راده مـن عـقـل بـايـد
اس کے مطابق ہوش مندی سے کام لیتے ہوۓ اس موقعہ کے نشیب و فراز - کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
*جنگ یرموک میں شرکت۔۔ 13ھ*
عورتوں کے مجاہدانہ کارنامے اور ہندؓ کا قول جنگ یرموک میں جس طرح مسلمان مجاہدوں نے اس جنگ عظیم میں اپنے کارنامے پیش کیے اسی طرح اہل اسلام کی خواتین نے اس میں پوری طرح قربانیاں پیش کیں۔ سیدنا ابو سفیانؓ کا پورا گھرانہ اس میدان کارزار میں حاضر تھا۔ خود حضرت ابو سفیانؓ حاضر تھے ۔ حضرت ابو سفیانؓ کے دونوں فرزند سیدنا یزیدؓ بن ابی سفیانؓ اور سیدنا معاویہؓ بن ابی سفیانؓ ان کی زوجہ ہندؓ بنت عتبہ ان کی لڑکی جویریہؓ بنت ابی سفیانؓ اور پھر اس جویریہؓ کا زوج (حضرت ابو سفیان کا داماد) یہ تمام حضرات اس میدان میں اسلام کی خاطر قربانی پیش کرنے کے لیے حاضر تھے ۔
اس موقع کا قلیل سا تذکرہ حضرت ہندؓ بنت عقبہ کے متعلق یہاں بیان کیا جا تا ہے ۔
مورخین نے لکھا ہے کہ اہل اسلام کی عورتیں جنگ یرموک میں شریک ہوئیں اور ان اضطراری حالات میں قتال شدید میں حصہ لیا۔ حضرت ہندؓ مخالفین اسلام رومیوں کے قتال کے لیے مسلمانوں کو قال پر ترغیب دلاتی تھیں اور دشمنوں کے خلاف تحریض کرتی تھیں۔ بعض ہنگامی حالات میں جوش دلاتے ہوۓ۔
سیدہ ہندؓ فرماتی تھیں کہ "اے مسلمانو! ان غیر مختونوں کو اپنی تیغوں سے ٹکڑے کر ڈالو۔
" تـقـول عـضـد والـغـلـفـان بـسـيـوفـكـم
اسلام میں ان کی نہایت شاندار خدمات ہیں جو انہوں نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود سرانجام دیں اور میدان کارزار میں اپنے زوج سمیت شریک ہوئیں۔ یہ سب کچھ اعلاء کلمتہ الحق کی خاطر اور دین متین کی اشاعت کے لیے تھا۔
*روایت حدیث*
صحابہ کرامؓ کے دور میں یہ چیز مروج تھی کہ سید الکونینﷺ کے فرامین و اقوال اور آپ کے اعمال کو صحابہ کرامؓ” ایک دو سرے سے نقل فرمایا کرتے تھے اور اس کو ایک نیکی اور سعادت سمجھ کر سرانجام دیا کرتے تھے ۔ یہی چیز آگے امت مسلمہ تک دین کے پہنچنے کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ اس سلسلہ میں حضرت ہندؓ بنت عقبہ سے بھی نقل روایت کا سلسلہ محدثین کے نزدیک ثابت ہے۔
محدثین لکھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سیدہ ہندؓ سے روایت نقل فرمائی ہے اور ان کے فرزند سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ماں (سیدہ ہندؓ بنت عتبہ ) سے حدیث نقل کی ہے۔
*وفات*
سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ جنگ یرموک سے واپسی پر مدینہ طیبہ میں تشریف لائیں اور پہلے سے مدینہ طیبہ ہی میں ان کا قیام تھا اور ان کے زوج سیدنا ابو سفیان ؓ بھی مدینہ منورہ میں ہی مقیم ہو چکے تھے۔ عمر کا آخری حصه اسی مقدس شهر میں پورا کیا اور اپنے خاوند سے پہلے ان کا مدینہ منورہ ہی میں 14ھ میں انتقال ہوا ۔ (اگرچہ ان کی وفات کے سلسلہ میں بعض دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں مگر مشہور قول کے مطابق 14ھ ہی ہے ) ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جس روز سیدنا ابوبکرؓ صدیق کے والد شریف حضرت ابو قحافہ ؓ نے وفات پائی اس روز حضرت ہندؓ بنت عتبہ کا بھی انتقال ہوا۔
" ومـاتـت يـوم مـات ابوقحافه" في سنه اربع عشره وهي ام معاوية بن ابي سفيان ؓ ".
*چند اہم گزارشات*
*سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کے متعلق مختصر طور پر ذیل میں چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں جو سابقہ عنوانات کے خلاصہ کے طور پر حاضر خدمت ہیں۔*
1) سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کی رشتہ داری کا تعلق رسولﷺ کے مبارک خاندان کے ساتھ یہ ہے کہ سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان ؓ ام المومنین ہیں اور سیدہ ام حبیبہؓ کے والد حضرت ابو سفیان ؓ حضرت ہند کے زوج ہیں۔ تو سیدہ ہند ؓ ام حبیبہ ؓ کے والد کی زوجہ ہیں ، اس طرح سے رشتہ داری کا دائمی تعلق موجود ہے۔
2) سیدہ ہندؓ قبیلہ قریش کی سردار اور عقل مند عورتوں میں سے تھیں اور اپنے قبیلہ کی خواتین میں ایک نمایاں حیثیت کی حامل تھیں ۔
3). قریش مکہ کی باعزت خواتین کے ساتھ مل کر مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ان کا اسلام منظور و مقبول ہوا۔ اور سابقہ خطاؤں کی معافی کا سامان ہو گیا۔
4). ایمان و اسلام کی روشنی سے جب سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ کا قلب منور ہوا تو خود تراشیدہ خداؤں کو اپنے ہاتھوں سے ریزہ ریزہ کر ڈالا اور مسئلہ توحید کی اپنے کردار و عمل سے تصدیق کر دی۔
5). پھر رسولﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو ئیں اور ان کو آنجناب ﷺ کی جانب سے *مرحبا* کا اعزاز نصیب ہوا اور *خوش آمدید* کے کلمات سے سرفراز ہوئیں۔
6). نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں انہوں نے بڑے اخلاص کے ساتھ اظہار مودت کیا اور ان کو جواب میں ازدیاد محبت کی بشارت حاصل ہوئی جو ان کے حق میں خوش نصیبی کی علامت ہے اور خوش بختی کی دلیل ہے ۔
7). پھر ان کو دیگر خواتین کی معیت میں بیعت نبویﷺ کا *شرف عظیم* حاصل ہوا جو ایک نعمت غیر مترقبہ ہے اور اخروی نجات کے لیے بہترین زریعہ ہے۔
8). بیعت کے بعد ان کو اپنے زوج کے مال سے بقدر ضرورت مصارف کی خصوصی اجازت فرمائی گئی۔
9). اسلام کے احیاء اور دین متین کی اشاعت کے لیے ان کو اپنے گھرانے سمیت اسلامی جنگوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ ان کے اخلاص ایمان کی واضح دلیل ہے ۔
10). احادیث نبویﷺ کو نقل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا یہ بھی ایک مستقل کار خیر ہے، اس میں بھی سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ نے حصہ لیا اور اشاعت دین و تبلیغ مذہب کے ثواب میں شامل ہوئیں۔
یہ تمام چیزیں سیدہ ہند ؓ بنت عتبہ کی دیانت و امانت، صداقت و شرافت اور ایمان کی پختگی کی واضح علامات ہیں ۔ (رضی اللہ تعالی عنہا)
اسلام کی ایسی نامور خواتین کو ان کی جاہلی دور کی خطاؤں اور لغزشوں کے پیش نظر برے القاب کے ساتھ یاد کرنا اور نازیبا کلمات سے ذکر کرنا مسلمانوں کے لیے ہرگز زیبا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
یعنی ” ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام گنہگاری ہے، جو کوئی توبہ نہ کرے وہی ہیں ظلم کرنے والے"۔
اللہ تعالیٰ نے جب ان کو ایمان کی دولت نصیب فرمائی تو ان کی سابقہ تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا اور جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔
قوله تعالى: *ان الحسنات يذهبن السيئات*
یعنی " ضرور نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں"۔
اور ارشاد نبوی ﷺ ہے: ان الاسلام يـهـدم مـا كـان قـبـلـه
یعنی " اسلام لانے سے سابقہ چیزیں ختم ہو جاتی ہیں اور ساقط ہو جاتی ہیں"۔
نیز سردار دو عالمﷺ کا امت مسلمہ کے لیے فرمان ہے : *اذكـروا مـوتـا كـم بـالـخـيـر* (یعنی اپنے موتی(مردوں) کو خیر کے ساتھ یاد کیا کرو)
نیز رسولﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ *اذا ذکر اصحابی فامسكوا* یعنی جب میرے صحابہؓ کا ذکر آئے تو اپنی زبان کو روک لو۔ یعنی برائی سے یاد نہ کرو۔
*اس بنا پر بھی حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کو خیر کے بغیر کسی دوسری چیز کے ساتھ یاد نہیں کرنا چاہیے ۔ ان کی خوبیوں کو ذکر کرنا مناسب ہے اور خامیوں کو نظر انداز کرنا لازم ہے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ کے حق میں علمائے عقائد نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ *لانـذكـرهـم الابـخير*۔ یعنی ہم ان کو خیر سے ہی یاد کرتے ہیں۔*
ان فرمودات کے پیش نظر سیدہ ہندؓ بنت عتبہ کو بھی خیر کے ساتھ یاد کرنا چاہیے ۔
اسلام ہمیں یہی ہدایات دیتا ہے۔
❤حافظ محمد عبدالله ❤