❤حافظ محمد عبدالله ❤
رجسٹرڈ ممبر
*تعارف باغ فدک*
*کیا سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکرؓ سے ناراض تھیں؟؟*
حضور اقدسﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالی تو سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس پیغام بھیجا (خود ہرگز نہیں گئیں۔ جو کہتے ہیں کہ دربار میں کھڑی رہیں اور کئی گھنٹے انتظار کیا وغیرہ،، یہ سب جھوٹ ہے۔ مسجد نبوی ہی تھی جہاں سب معاملات سلجھائے جاتے تھے۔ وہاں کون سا دربار تھا؟؟) کہ وہ آپ سے حضور اقدسﷺ کی وراثت کے لیے کہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قاصد کو بتایا کہ حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث مال میں نہیں چلتی وہ جو کچھ بھی چھوڑ جاتے ہیں سب کا سب صدقہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب حضرت فاطمہؓ کو یہ بات معلوم ہو گئی تو پھر آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس فدک کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ یہاں تک کہ آپؓ کا انتقال ہو گیا۔
شیعہ علماء اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ پر نہایت ہی غلیظ قسم کے الزام لگاتے رہے ہیں اور ان کے مجتہد اور ملاّ ذاکرین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کا حق وراثت چھین لیا تھا اور انہیں ان کی جائیداد سے محروم کر دیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ یہ دنیاوی مال نہ ملنے پر اس قدر ناراض ہوئیں کہ انہوں نے پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے زندگی بھر کوئی بات نہیں کی اور اپنے جنازے میں بھی شریک نہ ہونے کی وصیت کر گئیں۔
آئیے ہم اس واقعہ کی حقیقت پر نظر کریں اور دیکھیں کہ سیدہ فاطمہؓ کے دل میں دنیاوی مال سے محبت کیا واقعی اس درجے کی تھی کہ اس کے لیے انہوں نے اپنے والد محترمﷺ کے عمر بھر کے رفیق اور جانثارؓ کو چھوڑ دیا تھا اور شیعہ لوگوں کی یہ بات کہاں تک درست ہے؟
*مسئلہ فدک کی حقیقت*
خاتم النّبییّن حضور اقدسﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں یہود کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ان کے اپنے باغات اور زمینیں تھیں۔ اللّہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوّت و شوکت عطا فرمائی اور آس پاس کے علاقے ایک کے بعد دوسرا مسلمانوں کے قبضے میں آتے گئے۔ جب بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر کے بعض قبائل نے مسلمانوں کا رعب و جلال دیکھا تو انہوں نے بغیر کسی لڑائی کے اپنی زمینیں مسلمانوں کے حوالے کر دیں ان میں فدک نامی جگہ بھی تھی حضورﷺ نے یہ زمینیں اپنی تحویل (قبضے) میں لے لیں۔ یہ مال فئی تھا۔
مشہور تبرائی شیعہ عالم مقبول احمد حضرت باقر اور حضرت جعفر صادق رحمھما اللّٰہ کے حوالے سے لکھتا ہے۔
"تہذیب الاحکام میں جناب باقر علیہ السلام اور جناب امام جعفر علیہ السلام سے فئی کے بارے میں منقول ہے کہ جو زمین اس طرح ہاتھ آئے کہ اس میں خون نہ بہایا گیا ہو (اور نہ ہی جہاد کی نیت سے گھوڑے دوڑائے گئے ہوں) بلکہ کسی قوم سے مصالحت کی گئی ہو اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کچھ دیا ہو اور جو زمین غیر آباد پڑی ہو یا پانی کی تہہ میں ہو یا پانی کے راستے میں ہو، یہ سب کی سب فٸ میں داخل ہے"
(ضمیمہ مقبول نوٹ نمبر 3 صفحہ نمبر 156)
*نوٹ* یہی بات شیعہ کتاب تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 636 اور دوسری کتب شیعہ میں بھی موجود ہے۔ پیش نظر رہے کہ فدک مال فٸ میں سے تھا یہ ایک گاؤں تھا جو مدینہ منورہ سے تین منزل کے فاصلے پر تھا جس میں پانی کا چشمہ اور کچھ کھجور کے درخت تھے اور یہ بغیر کسی جنگ کے فئی کے طور پر حضورﷺ کے قبضے میں آیا تھا اور خود علماء شیعہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فدک اموال فئی میں سے تھا۔ یعنی اس (فدک) کے حق دار 8 قسم کے لوگ تھے۔
نہج البلاغہ کا شارح سیّد علی نقی لکھتا ہے۔
اہل فدک نصف آراں بقولے تمام را بصلح وآشتی تسلیم نمودند
(فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ صفحہ نمبر 959)
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف حصہ یا ایک قول کے مطابق تمام فدک بغیر کسی لڑائی کے حضور اقدسﷺ کے سپرد کر دیا۔
صاحب در نجفیہ لکھتا ہے کہ ایک روایت کے مطابق باغ فدک میں کھجور کے کل 11 درخت تھے جو حضور اقدس ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے لگائے تھے
انہ کان فیہا احدی عشر نخلة غرسھا رسول اللہﷺ بیدہ (در نجفیہ صفحہ نمبر 332)
مگر افسوس کہ شیعہ علماء نے اپنی عوام کو یہ بتانے میں کوئی حیاء محسوس نہیں کی کہ فدک درحقیقت ایک بہت وسیع و عریض ملک تھا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ نہیں چاہتے تھے کہ سیدہ فاطمہؓ کو اتنا بڑا ملک اور سلطنت مل جائے اور وہ دولت مند بن جائیں۔
*شیعہ کتابوں میں فدک کا کل رقبہ کتنا دکھایا گیا ہے اسے بھی دیکھتے جائیے!*
شیعہ مذہب کا سب سے بڑا عالم ملا محمّد بن یعقوب روایت کرتا ہے کہ جب خلیفہ مہدی نے حضرت موسیٰ کاظم سے پوچھا کہ فدک کا کل رقبہ کیا تھا اس کا حدود أربعہ تو بتائیں آپ نے اس کے جواب میں کہا:
حد منھا جبل احد وحد منھا عریش مصر وحد منھا سیف البحر وحد منھا دومۃ الجندل فقال لہ کل ھذا قال نعم یا امیر المؤمنین ھذا کلہ إن ھذا کلہ مما لم یوجف علی أھلہ رسول اللہ ﷺ یخیل ولا رکاب۔
( الشافی ترجمہ اصول کافی جلد 3، صفحہ192)
*ترجمہ* اس کا حدود أربعہ یہ ہے کہ ایک طرف جبل احد، دوسری طرف عریش مصر، تیسری سیف البحر اور چوتھی دومۃ الجندل۔ اس نے کہا کہ یہ ہے کل علاقہ؟ فرمایا ہاں اس علاقہ پر لڑائی نہیں ہوئی۔
حضرت موسٰی کاظمؒ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک کسی باغ یا گاؤں اور شہر کا نام نہیں تھا ایک بڑا وسیع و عریض کوئی ملک تھا کہ اس کا ایک کنارہ جبل أحد تھا تو دوسرا عریش مصر تھا ادھر سے سیف البحر تھا تو دوسری طرف دومة الجندل اس کی حد تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسٰی کاظمؒ کو خود پتہ نہ تھا کہ فدک کس چیز کا نام ہے اور اس کا حدود أربعہ کیا ہے۔ کسی نے ان سے کہہ دیا کہ آپ تو آدھی دنیا کے مالک ہیں اور آپ اس کو سچ سمجھ بیٹھے اور خلیفہ مہدی سے آدھی دنیا کا مطالبہ کر دیا۔
(استغفر اللہ)
شیعہ عالم باقر مجلسی حضرت جعفر رحمہ اللّٰہ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ۔
حضور اقدسﷺ نے کہا کہ جبرائیل علیہ السلام نے فدک کے حدود بتانے کے لیے اپنے پروں سے ایک لائن کھینچی اور مجھے حکم دیا کہ یہ سلطنت تمہارے (یعنی حضرت فاطمہؓ کے) حوالے کر دوں۔
(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 503)
اسی مضمون کی ایک اور روایت شیعہ عالم باقر مجلسی نے نقل کی ہے کہ اس میں فدک کی حدود یہ بیان ہوئی ہیں۔
ایک حد( کنارہ) عدن، دوسری سمرقند، تیسری افریقہ، چوتھی سمندر کا کنارہ جو آرمینیا سے ملا ہوا ہے
(بحار الانوار جلد 8 صفحہ 101)
اسی کتاب کی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک میں بے شمار قلعے اور اموال تھے اور آخر کار ان قلعوں اور اموال کی چابیاں حضورﷺ کے پاس آگئیں (ایضاً)
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا پر محیط تھا اور یہ ایک ایسی سلطنت کا نام تھا جو آرمینیا سے لے کر مصر تک پھیلی ہوئی تھی اس کی ایک حد مدینہ میں احد پہاڑ کو بھی لگتی تھی
( دیکھیے انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 16)
یعنی فدک ایک بہت عریض و وسیع سلطنت کا نام ہے جس میں کئی ملک تھے، کئی بڑے بڑے قلعے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنے پروں سے اس کی حدود مقرر کی تھیں اور یہ سارا مال و متاع و اسباب جائداد حضورﷺ نے اکیلی حضرت فاطمؓہ کے لیے رکھا تھا۔ حضرت فاطمہؓ ابوبکرؓ سے اسی وسیع سلطنت کا مطالبہ کر رہی تھیں اور بقول شیعہ لمبے چوڑے خطبے دے رہی تھی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مشہور محقق مناظر، فاتح اعظم رافضیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمتہ اللہ شیعہ کی طرف سے فدک کے اس حدود اربعہ پر دلچسپ تبصرہ فرمایا جسے پڑھنا نہایت اہم ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
"اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے جس فدک کا مطالبہ کیا تھا وہ اہل لغت کا خیالی نہیں بلکہ ائمہ معصومین ( شیعہ جن بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں ان) کا بیان کردہ حقیقی فدک ہی مانگا ہو گا۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سلطنت حجاز کے ایک چھوٹے سے حصّے سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ پھر وہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ کیونکر پورا کر سکتے تھے؟ اور سیدہ فاطمہؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ جان بوجھ کر سیدنا ابوبکرؓ سے وہ چیز مانگ رہی ہیں جو ان کی قبضے میں نہیں کسی طرح قابل تسلیم نہیں۔ اگر آج کوئی شخص صدر پاکستان سے مطالبہ کرے کہ مجھے افغانستان اور ایران بطور جاگیر دے دیا جائے تو صدر پاکستان بھلا اس کا مطالبہ کیونکر پورا کر سکتے ہیں؟ اس پر اگر وہ شخص روٹھ جائے اور صدرِ پاکستان کو غاصب کہنے لگے تو اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ اس بنا پر عقل کا یہی فیصلہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ محض فرضی قصہ ہے جو لوگ اس مطالبے کو صحیح تصور کرتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ تاریخ سے یہ ثابت کریں کہ مطالبہ کے وقت یہ علاقے حضرت ابوبکرؓ کے قبضے میں تھے اور اسلامی حدود میں داخل تھے اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو مطالبہ کو فرضی قصہ اور جعلی داستان کہنا پڑے گا"
(تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین صفحہ 215)
جیسا کہ ہم اوپر عرض کر آئے ہیں کہ فدک اموال فئی میں سے تھا اور اللّہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال فئی کی آمدنی کے حقدار بھی بتا دیے کہ وہ کن حقداروں میں خرچ کی جائے گی۔
یہ آٹھ مصارف (حقدار) ہیں جن کا ذکر سورۂ حشر کی آیت نمبر 7۔8۔ 9 میں موجود ہے۔
اور وہ یہ ہیں
*1* اللہ کے نام پر۔
*2* رسول اللہﷺ کے لیے۔
*3* رسولﷺ کے قرابت داروں کے لیے۔
*4* یتیموں۔
*5* مسکینوں۔
*6* مسافروں۔
*7* مہاجرین۔
*8* انصار کیلئے۔
شیعہ عالم محمد بن مرتضٰی المعروف فیض کاشانی نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے اموال فئی کے متعلق نقل کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
ھی للّہ وللرسول علیہ السلام ولمن قام مقامہ بعدہ
(تفسیر صافی صفحہ 210)
یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حق ہے اور جو رسولﷺ کے بعد اس کا قائم اور جانشین بنے اس کا حق ہے۔
اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مال فئی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا اور نہ یہ کسی کی وراثت میں چلتا ہے جب فدک مال فئی میں سے تھا تو پھر اس پر وراثت کا دعویٰ خود شیعہ مفسرین کے نزدیک بھی غلط ہے۔ معلوم نہیں یہ لوگ حضرت فاطمہؓ پر کیوں غلط الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کیا جس پر ان کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔
اس قسم کی باتوں سے حضرت فاطمہؓ کی عزت ہوتی ہے یا آپؓ کے بارے میں کوئی اور تصور پیدا ہوتا ہے اس پر شیعہ عوام بھی کبھی غور کر لیا کریں۔
حضورﷺ اس آیت کی روشنی میں اس کی آمدنی اپنے اہل و عیال اور قرآن کے بیان کردہ دوسرے مصارف پر خرچ کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ سے یہ بات کہی بھی تھی اور ان دونوں بزرگوں نے اس کا کبھی انکار نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
فکان النبیﷺ ینفق علی أھلہ من ھذا المال نفقۃ سنة ثم یاخذ مابقی فیجعلہ مجعل مال اللہ فعمل بذلک رسول اللہ ﷺ فی حیاتہ
(صحیح بخاری: جلد 2 صفحہ 576)
حضورﷺ اس مال سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ نکالتے تھے اور باقی مال کو اللہ تعالٰی کی بتائی گئی جگہوں پر خرچ کر دیتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا تھا۔
مٶرخ احمد بن یحیی بلاذری (279ھ)لکھتے ہیں۔
فکان نصف فدک خالصا لرسول اللہﷺ وکان یصرف ما یأتیہ منھا إلی أبناء السبیل وفی روایة أن فدک کانت للنبیﷺ فکان ینفق منھا ویاکل ویعود علی فقراء بنی ھاشم ویزوّج إلیھم
ترجمہ: آدھا فدک خالص حضورﷺ کے قبضے میں تھا۔ اس سے جو آمدنی آتی اسے مسافروں پر خرچ کر دیتے تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس سے خود بھی خرچ کرتے تھے اس میں سے اپنے کھانے کے لیے لے لیتے اس میں سے بنی ہاشم کے فقراء کو دیتے اور ان کی شادیاں کراتے تھے۔
(فتوح البلدان: صفحہ 31)
حافظ محمد عبداللہ
*کیا سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکرؓ سے ناراض تھیں؟؟*
حضور اقدسﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلافت سنبھالی تو سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس پیغام بھیجا (خود ہرگز نہیں گئیں۔ جو کہتے ہیں کہ دربار میں کھڑی رہیں اور کئی گھنٹے انتظار کیا وغیرہ،، یہ سب جھوٹ ہے۔ مسجد نبوی ہی تھی جہاں سب معاملات سلجھائے جاتے تھے۔ وہاں کون سا دربار تھا؟؟) کہ وہ آپ سے حضور اقدسﷺ کی وراثت کے لیے کہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قاصد کو بتایا کہ حضور اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث مال میں نہیں چلتی وہ جو کچھ بھی چھوڑ جاتے ہیں سب کا سب صدقہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب حضرت فاطمہؓ کو یہ بات معلوم ہو گئی تو پھر آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس فدک کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ یہاں تک کہ آپؓ کا انتقال ہو گیا۔
شیعہ علماء اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ پر نہایت ہی غلیظ قسم کے الزام لگاتے رہے ہیں اور ان کے مجتہد اور ملاّ ذاکرین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کا حق وراثت چھین لیا تھا اور انہیں ان کی جائیداد سے محروم کر دیا تھا۔ حضرت فاطمہؓ یہ دنیاوی مال نہ ملنے پر اس قدر ناراض ہوئیں کہ انہوں نے پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے زندگی بھر کوئی بات نہیں کی اور اپنے جنازے میں بھی شریک نہ ہونے کی وصیت کر گئیں۔
آئیے ہم اس واقعہ کی حقیقت پر نظر کریں اور دیکھیں کہ سیدہ فاطمہؓ کے دل میں دنیاوی مال سے محبت کیا واقعی اس درجے کی تھی کہ اس کے لیے انہوں نے اپنے والد محترمﷺ کے عمر بھر کے رفیق اور جانثارؓ کو چھوڑ دیا تھا اور شیعہ لوگوں کی یہ بات کہاں تک درست ہے؟
*مسئلہ فدک کی حقیقت*
خاتم النّبییّن حضور اقدسﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں یہود کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ان کے اپنے باغات اور زمینیں تھیں۔ اللّہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوّت و شوکت عطا فرمائی اور آس پاس کے علاقے ایک کے بعد دوسرا مسلمانوں کے قبضے میں آتے گئے۔ جب بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر کے بعض قبائل نے مسلمانوں کا رعب و جلال دیکھا تو انہوں نے بغیر کسی لڑائی کے اپنی زمینیں مسلمانوں کے حوالے کر دیں ان میں فدک نامی جگہ بھی تھی حضورﷺ نے یہ زمینیں اپنی تحویل (قبضے) میں لے لیں۔ یہ مال فئی تھا۔
مشہور تبرائی شیعہ عالم مقبول احمد حضرت باقر اور حضرت جعفر صادق رحمھما اللّٰہ کے حوالے سے لکھتا ہے۔
"تہذیب الاحکام میں جناب باقر علیہ السلام اور جناب امام جعفر علیہ السلام سے فئی کے بارے میں منقول ہے کہ جو زمین اس طرح ہاتھ آئے کہ اس میں خون نہ بہایا گیا ہو (اور نہ ہی جہاد کی نیت سے گھوڑے دوڑائے گئے ہوں) بلکہ کسی قوم سے مصالحت کی گئی ہو اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کچھ دیا ہو اور جو زمین غیر آباد پڑی ہو یا پانی کی تہہ میں ہو یا پانی کے راستے میں ہو، یہ سب کی سب فٸ میں داخل ہے"
(ضمیمہ مقبول نوٹ نمبر 3 صفحہ نمبر 156)
*نوٹ* یہی بات شیعہ کتاب تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 636 اور دوسری کتب شیعہ میں بھی موجود ہے۔ پیش نظر رہے کہ فدک مال فٸ میں سے تھا یہ ایک گاؤں تھا جو مدینہ منورہ سے تین منزل کے فاصلے پر تھا جس میں پانی کا چشمہ اور کچھ کھجور کے درخت تھے اور یہ بغیر کسی جنگ کے فئی کے طور پر حضورﷺ کے قبضے میں آیا تھا اور خود علماء شیعہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فدک اموال فئی میں سے تھا۔ یعنی اس (فدک) کے حق دار 8 قسم کے لوگ تھے۔
نہج البلاغہ کا شارح سیّد علی نقی لکھتا ہے۔
اہل فدک نصف آراں بقولے تمام را بصلح وآشتی تسلیم نمودند
(فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ صفحہ نمبر 959)
فدک کے لوگوں نے اس کا نصف حصہ یا ایک قول کے مطابق تمام فدک بغیر کسی لڑائی کے حضور اقدسﷺ کے سپرد کر دیا۔
صاحب در نجفیہ لکھتا ہے کہ ایک روایت کے مطابق باغ فدک میں کھجور کے کل 11 درخت تھے جو حضور اقدس ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے لگائے تھے
انہ کان فیہا احدی عشر نخلة غرسھا رسول اللہﷺ بیدہ (در نجفیہ صفحہ نمبر 332)
مگر افسوس کہ شیعہ علماء نے اپنی عوام کو یہ بتانے میں کوئی حیاء محسوس نہیں کی کہ فدک درحقیقت ایک بہت وسیع و عریض ملک تھا اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ نہیں چاہتے تھے کہ سیدہ فاطمہؓ کو اتنا بڑا ملک اور سلطنت مل جائے اور وہ دولت مند بن جائیں۔
*شیعہ کتابوں میں فدک کا کل رقبہ کتنا دکھایا گیا ہے اسے بھی دیکھتے جائیے!*
شیعہ مذہب کا سب سے بڑا عالم ملا محمّد بن یعقوب روایت کرتا ہے کہ جب خلیفہ مہدی نے حضرت موسیٰ کاظم سے پوچھا کہ فدک کا کل رقبہ کیا تھا اس کا حدود أربعہ تو بتائیں آپ نے اس کے جواب میں کہا:
حد منھا جبل احد وحد منھا عریش مصر وحد منھا سیف البحر وحد منھا دومۃ الجندل فقال لہ کل ھذا قال نعم یا امیر المؤمنین ھذا کلہ إن ھذا کلہ مما لم یوجف علی أھلہ رسول اللہ ﷺ یخیل ولا رکاب۔
( الشافی ترجمہ اصول کافی جلد 3، صفحہ192)
*ترجمہ* اس کا حدود أربعہ یہ ہے کہ ایک طرف جبل احد، دوسری طرف عریش مصر، تیسری سیف البحر اور چوتھی دومۃ الجندل۔ اس نے کہا کہ یہ ہے کل علاقہ؟ فرمایا ہاں اس علاقہ پر لڑائی نہیں ہوئی۔
حضرت موسٰی کاظمؒ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک کسی باغ یا گاؤں اور شہر کا نام نہیں تھا ایک بڑا وسیع و عریض کوئی ملک تھا کہ اس کا ایک کنارہ جبل أحد تھا تو دوسرا عریش مصر تھا ادھر سے سیف البحر تھا تو دوسری طرف دومة الجندل اس کی حد تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسٰی کاظمؒ کو خود پتہ نہ تھا کہ فدک کس چیز کا نام ہے اور اس کا حدود أربعہ کیا ہے۔ کسی نے ان سے کہہ دیا کہ آپ تو آدھی دنیا کے مالک ہیں اور آپ اس کو سچ سمجھ بیٹھے اور خلیفہ مہدی سے آدھی دنیا کا مطالبہ کر دیا۔
(استغفر اللہ)
شیعہ عالم باقر مجلسی حضرت جعفر رحمہ اللّٰہ کے حوالے سے لکھتا ہے کہ۔
حضور اقدسﷺ نے کہا کہ جبرائیل علیہ السلام نے فدک کے حدود بتانے کے لیے اپنے پروں سے ایک لائن کھینچی اور مجھے حکم دیا کہ یہ سلطنت تمہارے (یعنی حضرت فاطمہؓ کے) حوالے کر دوں۔
(حیات القلوب جلد 2 صفحہ 503)
اسی مضمون کی ایک اور روایت شیعہ عالم باقر مجلسی نے نقل کی ہے کہ اس میں فدک کی حدود یہ بیان ہوئی ہیں۔
ایک حد( کنارہ) عدن، دوسری سمرقند، تیسری افریقہ، چوتھی سمندر کا کنارہ جو آرمینیا سے ملا ہوا ہے
(بحار الانوار جلد 8 صفحہ 101)
اسی کتاب کی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک میں بے شمار قلعے اور اموال تھے اور آخر کار ان قلعوں اور اموال کی چابیاں حضورﷺ کے پاس آگئیں (ایضاً)
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا پر محیط تھا اور یہ ایک ایسی سلطنت کا نام تھا جو آرمینیا سے لے کر مصر تک پھیلی ہوئی تھی اس کی ایک حد مدینہ میں احد پہاڑ کو بھی لگتی تھی
( دیکھیے انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 16)
یعنی فدک ایک بہت عریض و وسیع سلطنت کا نام ہے جس میں کئی ملک تھے، کئی بڑے بڑے قلعے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اپنے پروں سے اس کی حدود مقرر کی تھیں اور یہ سارا مال و متاع و اسباب جائداد حضورﷺ نے اکیلی حضرت فاطمؓہ کے لیے رکھا تھا۔ حضرت فاطمہؓ ابوبکرؓ سے اسی وسیع سلطنت کا مطالبہ کر رہی تھیں اور بقول شیعہ لمبے چوڑے خطبے دے رہی تھی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مشہور محقق مناظر، فاتح اعظم رافضیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمتہ اللہ شیعہ کی طرف سے فدک کے اس حدود اربعہ پر دلچسپ تبصرہ فرمایا جسے پڑھنا نہایت اہم ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
"اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے جس فدک کا مطالبہ کیا تھا وہ اہل لغت کا خیالی نہیں بلکہ ائمہ معصومین ( شیعہ جن بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں ان) کا بیان کردہ حقیقی فدک ہی مانگا ہو گا۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سلطنت حجاز کے ایک چھوٹے سے حصّے سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ پھر وہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ کیونکر پورا کر سکتے تھے؟ اور سیدہ فاطمہؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ جان بوجھ کر سیدنا ابوبکرؓ سے وہ چیز مانگ رہی ہیں جو ان کی قبضے میں نہیں کسی طرح قابل تسلیم نہیں۔ اگر آج کوئی شخص صدر پاکستان سے مطالبہ کرے کہ مجھے افغانستان اور ایران بطور جاگیر دے دیا جائے تو صدر پاکستان بھلا اس کا مطالبہ کیونکر پورا کر سکتے ہیں؟ اس پر اگر وہ شخص روٹھ جائے اور صدرِ پاکستان کو غاصب کہنے لگے تو اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ اس بنا پر عقل کا یہی فیصلہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا مطالبہ محض فرضی قصہ ہے جو لوگ اس مطالبے کو صحیح تصور کرتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ تاریخ سے یہ ثابت کریں کہ مطالبہ کے وقت یہ علاقے حضرت ابوبکرؓ کے قبضے میں تھے اور اسلامی حدود میں داخل تھے اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو مطالبہ کو فرضی قصہ اور جعلی داستان کہنا پڑے گا"
(تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین صفحہ 215)
جیسا کہ ہم اوپر عرض کر آئے ہیں کہ فدک اموال فئی میں سے تھا اور اللّہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مال فئی کی آمدنی کے حقدار بھی بتا دیے کہ وہ کن حقداروں میں خرچ کی جائے گی۔
یہ آٹھ مصارف (حقدار) ہیں جن کا ذکر سورۂ حشر کی آیت نمبر 7۔8۔ 9 میں موجود ہے۔
اور وہ یہ ہیں
*1* اللہ کے نام پر۔
*2* رسول اللہﷺ کے لیے۔
*3* رسولﷺ کے قرابت داروں کے لیے۔
*4* یتیموں۔
*5* مسکینوں۔
*6* مسافروں۔
*7* مہاجرین۔
*8* انصار کیلئے۔
شیعہ عالم محمد بن مرتضٰی المعروف فیض کاشانی نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے حوالے سے اموال فئی کے متعلق نقل کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
ھی للّہ وللرسول علیہ السلام ولمن قام مقامہ بعدہ
(تفسیر صافی صفحہ 210)
یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حق ہے اور جو رسولﷺ کے بعد اس کا قائم اور جانشین بنے اس کا حق ہے۔
اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ مال فئی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا اور نہ یہ کسی کی وراثت میں چلتا ہے جب فدک مال فئی میں سے تھا تو پھر اس پر وراثت کا دعویٰ خود شیعہ مفسرین کے نزدیک بھی غلط ہے۔ معلوم نہیں یہ لوگ حضرت فاطمہؓ پر کیوں غلط الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کیا جس پر ان کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔
اس قسم کی باتوں سے حضرت فاطمہؓ کی عزت ہوتی ہے یا آپؓ کے بارے میں کوئی اور تصور پیدا ہوتا ہے اس پر شیعہ عوام بھی کبھی غور کر لیا کریں۔
حضورﷺ اس آیت کی روشنی میں اس کی آمدنی اپنے اہل و عیال اور قرآن کے بیان کردہ دوسرے مصارف پر خرچ کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ سے یہ بات کہی بھی تھی اور ان دونوں بزرگوں نے اس کا کبھی انکار نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
فکان النبیﷺ ینفق علی أھلہ من ھذا المال نفقۃ سنة ثم یاخذ مابقی فیجعلہ مجعل مال اللہ فعمل بذلک رسول اللہ ﷺ فی حیاتہ
(صحیح بخاری: جلد 2 صفحہ 576)
حضورﷺ اس مال سے اپنے گھر والوں کا سالانہ خرچ نکالتے تھے اور باقی مال کو اللہ تعالٰی کی بتائی گئی جگہوں پر خرچ کر دیتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا تھا۔
مٶرخ احمد بن یحیی بلاذری (279ھ)لکھتے ہیں۔
فکان نصف فدک خالصا لرسول اللہﷺ وکان یصرف ما یأتیہ منھا إلی أبناء السبیل وفی روایة أن فدک کانت للنبیﷺ فکان ینفق منھا ویاکل ویعود علی فقراء بنی ھاشم ویزوّج إلیھم
ترجمہ: آدھا فدک خالص حضورﷺ کے قبضے میں تھا۔ اس سے جو آمدنی آتی اسے مسافروں پر خرچ کر دیتے تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس سے خود بھی خرچ کرتے تھے اس میں سے اپنے کھانے کے لیے لے لیتے اس میں سے بنی ہاشم کے فقراء کو دیتے اور ان کی شادیاں کراتے تھے۔
(فتوح البلدان: صفحہ 31)
حافظ محمد عبداللہ