السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

مجلس علمی آفیشل 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر

عبد الھادی یا میر ہادی نام رکھنا


سوال​


عبدالہادی نام رکھا ہو اور صرف ”ہادی“ کہا جائے کیا حرج ہے؟ اور اگر عبدالہادی کی جگہ ”میر ہادی“ نام رکھا جائے تو ٹھیک ہے کیا؟

جواب​


اللہ تعالی کےوہ اسماء حسنیٰ جو باری تعالی کے اسم ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفات مخصوصہ کے معنی ہی میں استعمال ہوتے ہوں ان کا استعمال مخلوق کے لیے ”عبد“ کی اضافت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے، اور وہ اسماء جو باری تعالی کی صفات خاصہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا جاسکتا ہو تو ایسے ناموں کا استعمال مخلوق کے لیے کرنا جائز ہے۔
"ہادی" اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے، اس کا معنی ہے "ہدایت دینے والی ذات"،اس لیے ہادی کے شروع میں لفظ "عبد" کا اضافہ کرکے "عبدالہادی" نام رکھنا چاہیے، البتہ " ہادی" کا ایک معنی "راہ نمائی کرنے والا" بھی ہے، اس اعتبار سے یہ بندوں کی بھی صفت ہے؛ لہذا صرف ”ہادی“ یا ”میر ہادی“ نام رکھنا بھی جائز ہے۔
تفسير الطبري میں ہے:
"و كان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضا بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء - كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني".
(تفسير الطبري = جامع البيان (1/ 133)، سورۃ الفاتحة، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212201664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

عبد الھادی یا میر ہادی نام رکھنا


سوال​


عبدالہادی نام رکھا ہو اور صرف ”ہادی“ کہا جائے کیا حرج ہے؟ اور اگر عبدالہادی کی جگہ ”میر ہادی“ نام رکھا جائے تو ٹھیک ہے کیا؟

جواب​


اللہ تعالی کےوہ اسماء حسنیٰ جو باری تعالی کے اسم ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفات مخصوصہ کے معنی ہی میں استعمال ہوتے ہوں ان کا استعمال مخلوق کے لیے ”عبد“ کی اضافت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے، اور وہ اسماء جو باری تعالی کی صفات خاصہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا جاسکتا ہو تو ایسے ناموں کا استعمال مخلوق کے لیے کرنا جائز ہے۔
"ہادی" اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے، اس کا معنی ہے "ہدایت دینے والی ذات"،اس لیے ہادی کے شروع میں لفظ "عبد" کا اضافہ کرکے "عبدالہادی" نام رکھنا چاہیے، البتہ " ہادی" کا ایک معنی "راہ نمائی کرنے والا" بھی ہے، اس اعتبار سے یہ بندوں کی بھی صفت ہے؛ لہذا صرف ”ہادی“ یا ”میر ہادی“ نام رکھنا بھی جائز ہے۔
تفسير الطبري میں ہے:
"و كان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضا بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء - كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني".
(تفسير الطبري = جامع البيان (1/ 133)، سورۃ الفاتحة، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212201664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

عبد الھادی یا میر ہادی نام رکھنا


سوال​


عبدالہادی نام رکھا ہو اور صرف ”ہادی“ کہا جائے کیا حرج ہے؟ اور اگر عبدالہادی کی جگہ ”میر ہادی“ نام رکھا جائے تو ٹھیک ہے کیا؟

جواب​


اللہ تعالی کےوہ اسماء حسنیٰ جو باری تعالی کے اسم ذات ہوں یا صرف باری تعالی کی صفات مخصوصہ کے معنی ہی میں استعمال ہوتے ہوں ان کا استعمال مخلوق کے لیے ”عبد“ کی اضافت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے، اور وہ اسماء جو باری تعالی کی صفات خاصہ کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہوں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے ان کا اطلاق غیر اللہ پر کیا جاسکتا ہو تو ایسے ناموں کا استعمال مخلوق کے لیے کرنا جائز ہے۔
"ہادی" اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے، اس کا معنی ہے "ہدایت دینے والی ذات"،اس لیے ہادی کے شروع میں لفظ "عبد" کا اضافہ کرکے "عبدالہادی" نام رکھنا چاہیے، البتہ " ہادی" کا ایک معنی "راہ نمائی کرنے والا" بھی ہے، اس اعتبار سے یہ بندوں کی بھی صفت ہے؛ لہذا صرف ”ہادی“ یا ”میر ہادی“ نام رکھنا بھی جائز ہے۔
تفسير الطبري میں ہے:
"و كان لله جل ذكره أسماء قد حرم على خلقه أن يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل "الله" و "الرحمن" و "الخالق"؛ وأسماء أباح لهم أن يسمي بعضهم بعضا بها، وذلك: كالرحيم والسميع والبصير والكريم، وما أشبه ذلك من الأسماء - كان الواجب أن تقدم أسماؤه التي هي له خاصة دون جميع خلقه، ليعرف السامع ذلك من توجه إليه الحمد والتمجيد، ثم يتبع ذلك بأسمائه التي قد تسمى بها غيره، بعد علم المخاطب أو السامع من توجه إليه ما يتلو ذلك من المعاني".
(تفسير الطبري = جامع البيان (1/ 133)، سورۃ الفاتحة، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212201664
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
جزاک اللہ
 
Top