کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
نبی کریم ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات
عنوان
نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور آپ کے اتباع اور آپ کے خلفا ؓ کے اتباع کے بارے میں احادیث
نبی کریم ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات
عنوان
نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور آپ کے اتباع اور آپ کے خلفا ؓ کے اتباع کے بارے میں احادیث
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میری اِطاعت کی اس نے اللہ کی اِطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اِطاعت کی اور اس نے میری اِطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری ساری اُمت جنت میں داخل ہوگی لیکن جو انکار کرے گا (وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا)۔ عرض کیا گیا :اورکون انکار کرے گا؟ آپ نے فرمایا: جس نے میری اِطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔
حضرت جابر ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ چند فرشتے نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ سورہے تھی۔ اُن فرشتوں نے (آپس میں ) کہا کہ تمہارے اس ساتھی کے لیے ایک مثال ہے، اس مثال کو بیان کرو۔ بعض فرشتوں نے کہا کہ یہ سورہے ہیں ، اور بعض فرشتوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے۔ تو فرشتوں نے کہا کہ ان کی مثال اس آدمی جیسی ہے کہ جس نے ایک گھر بنایا اور اس گھر میں کھانے کی ایک دعوت کا انتظام کیا اور ایک بلانے والے کو بھیجا ۔تو جس نے اس بلانے والے کی بات مانی وہ گھر میں داخل ہوا اور اس دعوت میں سے کھایا، اور جس نے اس بلانے والے کی بات نہ مانی نہ وہ گھر میں داخل ہوا اور نہ اس دعوت میں سے کھایا۔ پھر فرشتوں نے کہا کہ اس مثال کا مطلب ان کے سامنے بیان کرو تاکہ یہ سمجھ جائیں ۔ اس پر بعض فرشتوں نے کہا کہ یہ تو سورہے ہیں ، اور بعض نے کہا کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے۔ تب فرشتوں نے یہ مطلب بیان کیا کہ وہ گھر جنت ہے اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں ، لہٰذا جس نے محمد ﷺ کی اِطاعت کی اس نے اللہ کی اِطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور محمد ﷺ کی وجہ سے لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں (جس نے آپ کی مانی اس نے اللہ کی مانی اور جنت میں جائے گا ،اور جس نے آپ کی نہ مانی اس نے اللہ کی نہ مانی اور وہ جنت میں نہیں جائے گا)۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اور اس دین کی مثال جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے، اس آدمی جیسی ہے جو اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا کہ اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے (دشمن کے بڑے) لشکر کو (تمہاری طرف آتے ہوئے) دیکھا ہے، میں تم کو بے غرض ہو کرڈرا رہا ہوں ،لہٰذا (یہاں سے بھاگنے میں ) جلدی کرو جلدی کرو ۔ چناں چہ اس کی قوم میں سے کچھ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور سر شام چل دیے اور آرام سے چلتے رہے اور وہ تو بچ گئے، اور اس قوم میں سے کچھ لوگوں نے اسے جھوٹا سمجھا اور وہیں ٹھہرے رہے تو دشمن کے لشکر نے ان پر صبح صبح حملہ کرکے ہلاک کردیا اور ان کو بالکل ختم کردیا۔ یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنھوں نے میری بات مانی اور جو دین حق میں لے کر آیا اس پر عمل کیا ، اور ان لوگوں کی جنھوں نے میری نافرمانی کی اور جو دین حق لے کر آیا میں اس کو جھٹلایا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جو کچھ بنی اسرائیل پر آیا وہ سب کچھ میری اُمت پر ضرور آئے گا (اور دونوں میں ایسی مماثلت ہوگی) جیسے کہ دونوں جوتے ایک دوسرے کے برابر کیے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی نے اپنی ماں کے ساتھ کھلم کھلا زنا کیا ہوگاتو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس کام کو کرے گا۔ اور بنی اسرائیل بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے میری اُمت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور ایک فرقہ کے علاوہ باقی تمام فرقے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: جو اس راستے پر چلے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔
حضرت عِرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورِ اَقدس ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر اپنے چہرہ ٔاَنور کے ساتھ ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ایسا مؤثر وعظ بیان فرمایا کہ جس سے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل کانپ گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا یہ وعظ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جانے والے کا (آخری) وعظ ہوا کرتا ہے، لہٰذا آپ ہمیں کن خاص باتوں کی تاکید فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو، اور امیر کی بات سنو اور مانو اگرچہ وہ حبشی غلام ہو، کیوں کہ تم میں سے میرے بعدجو بھی زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو ایسی صورت میں میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرتے رہنا اور اسے تھامے رکھنا اور دانتوں سے مضبوط پکڑے رکھنا، اور نئی نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
حضرت عمر ؓ حضورِ اَکرم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے رب سے اپنے بعد صحابہ( ؓ )میں ہونے والے اختلاف کے بارے میں پوچھا،تو اللہ تعالیٰ نے میرے پاس یہ وحی بھیجی کہ اے محمد !آپ کے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں ، ہر ستارے میں نورہے، لیکن بعض ستارے دوسروں سے زیادہ روشن ہیں ۔ جب صحابہ کی کسی امر کے بارے میں رائے مختلف ہوجائے تو جو آدمی اُن میں سے کسی بھی ایک کی رائے پر عمل کرلے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ اور آپ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤگے ۔
حضرت حذیفہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں تم میں کتنا عرصہ رہوں گا۔ اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر ؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ان دونوں کی اِقتدا کرنا، اور عمار کی سیرت اپناؤ، اور ابنِ مسعود تمہیں جو بھی بتائیں اسے سچا مانو۔
حضرت بلال بن حارث مُزَنی ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میرے بعد میری کسی مٹی ہوئی سنت کو زندہ کیا تو جتنے لوگ اس سنت پر عمل کریں گے اُن سب کے برابر اسے اجر ملے گا اور اس سے ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔اور جس نے گمراہی کا کوئی ایسا طریقہ ایجاد کیا جس سے اللہ اور اس کے رسول کبھی راضی نہیں ہوسکتے، تو جتنے لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گے اُن سب کے برابر اسے گناہ ہوگا اور اس سے ان لوگوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
حضرت عمرو بن عوف ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ دِین حجاز کی طرف ایسے سمٹ آئے گا جیسے کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے، اور دِین حجاز میں اپنی جگہ اس طرح ضرور بنالے گا جس طرح پہاڑی بکری(شیر کے ڈر کی وجہ سے) پہاڑی کی چوٹی پر اپنی جگہ بناتی ہے۔ دین شروع میں اجنبی تھا اور عنقریب پھر پہلے کی طرح اجنبی ہوجائے گا، لہٰذا اُن لوگوں کے لیے خوش خبری ہے جن کو دین کی وجہ سے اجنبی سمجھا جائے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بعد میری جس سنت کو لوگ بگاڑدیں یہ اس سنت کو ٹھیک کردیتے ہیں ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اَقدس ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اے میرے بیٹے! اگر تم ہر وقت اپنے دل کی یہ کیفیت بناسکتے ہو کہ اس میں کسی کے بارے میں ذرا بھی کھوٹ نہ ہو تو ضرور ایسا کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا ۔
حضرت ابن عباس ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے بگڑنے کے وقت جس نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ یہ روایت بیہقی کی ہے، اور طبرانی میں یہ روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ اسے ایک شہید کا ثواب ملے گا ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میر ی اُمت کے بگڑنے کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والے کو ایک شہید کا اجر ملے گا ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ میری اُمت کے اختلاف کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھامنے والا ہاتھ میں چنگاری لینے والے کی طرح ہوگا۔
حضرت انس ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جومیری سنت سے اِعراض کرے اس کا میرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ روایت مسلم کی ہے۔ اور ابن عساکر میں یہ روایت حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے اور اس کے شروع میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جس نے میری سنت پر عمل کیا اس کا مجھ سے تعلق ہے۔
حضرت عائشہ ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتی ہیں کہ جس نے سنت کو مضبوطی سے تھاما وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
حضرت انس ؓ حضورِ اَقدس ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔