کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
مقدمۂ کتاب
عنوان: مقدمۂ کتاب بقلم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (ترجمہ از عربی)
مقدمۂ کتاب
عنوان: مقدمۂ کتاب بقلم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (ترجمہ از عربی)
(عربی سے اردو)
از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ، وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ أَجْمَعِیْنَ، وَمَنْ تَبِعَہُمْ بِإِحْسَانٍ إِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ۔
نبی کریم ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ کی سیرت اور تاریخ اس قوتِ ایمانی اور جوشِ اِسلامی کے طاقت ور ترین سر چشموں میں سے ہے، جس کو اُمّتِمسلمہ نے دل کی انگیٹھیوں کوسلگانے اور دعوتِ ایمان کے شعلے کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا ہے ۔جو مادّیت کی تیز و تُند آندھیوں سے بار بار سردہوجاتی ہیں ۔ اور اگر یہ انگیٹھیاں سرد ہوجائیں تو ملّتِ اسلامیہ کے پاس قوت و تاثیر اور امتیاز کا سرمایہ نہ رہے، اور یہ لاشہ ٔ بے جان ہوکر رہ جائے جس کو زندگی اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہو۔
یہ اُن مردانِ خدا کی تاریخ ہے کہ جب اُن کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی تو انھوں نے اس کو دل و جان سے قبول کیا اور اس کے تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیا:
{رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا}
اور اپنا ہاتھ رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں دے دیا۔ چناں چہ اُن کے لیے اللہ کے راستے کی مشقتیں معمولی اور جان و مال کی قربانی آسان ہوگئی، حتیٰ کے اس پر اُن کا یقین محکم اور پختہ ہوگیا اور بالآخر دل و دماغ پرچھا گیا۔ غیب پر ایمان ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ، اہل ایمان پر شفقت ، کفار پر شدت۔ نیز آخرت کو دنیا پر، ادھار کو نقد پر، غیب کو شہود پر اور ہدایت کو جہالت پر ترجیح اور ہدایتِ عامہ کے بے پناہ شوق کے عجیب و غریب و اقعات رونما ہونے لگے۔ اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لانے، مذاہب کے ظلم وجور سے اسلام کی عدل گستری میں پہنچانے، دنیا کی تنگیوں سے آخرت کی وسعتوں میں لے جانے اور دنیوی مال و متاع اور زیب و زینت سے بے پروا ہوجانے ، اللہ سے ملنے اور جنت میں داخل ہونے کے شوق کے محیّر العقول واقعات سامنے آنے لگے۔ انھوں نے اسلام کی نعمت کو ٹھکانے لگانے، اس کی برکتوں کو اَقصائے عالَم میں عام کرنے اور چپے ّچپے ّکی خاک چھاننے کے بے پایاں جذبات میں بلند ہمتی و دقیقہ رسی کے باعث اپنے گھر بار کو چھوڑا، راحت و آرام کو خیر باد کہا اور اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا، حتیٰ کہ دین کی بنیادیں قائم ہوگئیں ، دل اللہ کی طرف مائل ہوگئے اور ایمان کے ایسے مبارک، جاں فزا اور طاقت ور جھونکے چلے جس سے توحید و ایمان اور عبادت و تقویٰ کی سلطنت قائم ہوگئی، جنت کا بازار گرم ہوگیا، دنیا میں ہدایت عام ہوگئی اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔
تاریخ کی کتابیں یہ واقعات اور قصے اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ، واقعات کے مجموعے ان سچے قصوں کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں ، کیوں کہ یہ واقعات اور قصے اپنے اندر مسلمانوں کے لیے حیاتِ نو کا پیغام اور تجدید کا سامان رکھتے ہیں ، اسی لیے اسلام کے اہلِ دعوت و اصلاح ان واقعات پر اپنی ہمت و توجہ صَرف کرتے رہے اور مسلمانوں کے اندر جوشِ ایمانی کو بیدار کرنے ، حمیّتِ اسلامی پیدا کرنے اور ان کی ہمتوں پر مہمیز کا کام کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔
لیکن مسلمانوں پر ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ اس تاریخ سے بے گانہ ہوکر اس کو فراموش کربیٹھے۔ ہمارے اہل وعظ وارشاد اور اہلِ قلم و مصنّفین نے اپنی تمام تر توجہ اولیائے متأخرین کے واقعات اور اَربابِ زُہد و مشیخت کی حکایات بیان کرنے پر صَرف کردی۔ اور لوگ بھی اس پر ایسے فریفتہ ہوئے کہ وعظ و ارشاد کی مجالس ، درس و تدریس کے حلقے اور اس دور کی ساری تصانیف اور کتابیں انھیں واقعات سے بھر گئیں اور سارا علمی سرمایہ صوفیائے کرام کے احوال و کرامات کی نذر ہوگیا۔
جہاں تک راقم السطور کو علم ہے صحابۂ کرام ؓ کے واقعات و حالات کا اسلامی دعوت و تربیت میں کیا مقام ہے اور اس گنج گراں مایہ کی اصلاح و تربیت کے میدان میں اہمیت، تاثیر کی افادیت اور قدروقیمت کی جانب پہلی بارمشہور داعی الی اللہ، مُصلِح کبیر حضرت مولانا محمد الیاس (المتوفّٰیھ) کی توجہ ہوئی، جو پوری ہمت اور بلند حوصلگی کے ساتھ اس کے مطالعہ میں منہمک ہوگئی۔ میں نے اُن میں سیرتِ نبوی ﷺ اور صحابۂ ؓ کے حالات کا بے پناہ شوق پایا، وہ اپنے عقیدت مندوں اور ساتھیوں سے انھیں کی باتیں کرتے، اسی کا مذاکرہ کرتے۔ چنانچہ ہر شب مولانا محمد یوسف صاحب ؒ یہ واقعات پڑھ کر سناتے۔ وہ پوری توجہ اور عظمت کے ساتھ ہمہ تن شوق بن کر سنتے تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی نشر و اشاعت کی جائے۔
ان کے بھتیجے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہُ نے ایک متوسط رسالہ صحابۂ کرام ؓ کے حالات میں تالیف کیا، جس سے حضرت مولانا محمد الیاس بہت مسرور ہوئے اور تمام کام کرنے والوں اور دعوت کے راستے میں نکلنے والوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ و مذاکرہ ضروری قرار دیا۔ چناں چہ یہ کتاب دعوت کے کام کرنے والوں کے نصاب میں داخل ہے اور دینی حلقوں میں اس کو ایسا قبولِ عام حاصل ہے جو بہت کم کتابوں کو حاصل ہوا ہوگا۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کے وِصال کے بعد مولانا محمد یوسف صاحب اپنے عظیم المرتبت والد کے جانشین اور وارث ہوئے۔ دعوت کی ذمہ داریاں بھی اُن کے حصے میں آئیں ، سیرتِ نبوی ﷺ اور حالاتِ صحابہ ؓ سے شغف بھی ورثہ میں ملا، اور دعوت کے سخت مشاغل کے باوجود سیرت و تاریخ اور طبقاتُ الصحابہ کی کتابوں کا مطالعہ اور اس کا انہماک جاری رکھا۔چناں چہ جن لوگوں کو میں جانتا ہوں اُن میں مولانا محمد یوسف صاحب جیسا صحابہ ؓ کے حالات پر نظر رکھنے والا، اُن سے زیادہ استحضار رکھنے والا، اُن سے اچھا استشہاد کرنے والا، اپنی تقریروں اور گفتگو میں اُن کے واقعات کو نگینے کی طرح جڑنے والا، وسیع النظر اور باریک بین عالم میں نے نہیں دیکھا۔ قریب قریب یہی سب واقعات اور سچے قصے اُن کی قوتِ کلام کا سرچشمہ ، اُن کی اثر انگیزی اور سحر آفرینی کا ذریعہ تھے ۔جماعتوں کو بڑی سے بڑی قربانی دینے ، بڑے سے بڑے ایثار کے لیے تیار کرنے، سخت سے سخت تکلیفیں جھیلنے اور بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانے اور دعوت کے راستے میں سختیاں برداشت کرنے کا بہت بڑا ہتھیار تھے۔
دعوت اُن کے زمانہ میں ہندوستان سے نکل کر اسلامی ممالک اور یورپ و امریکہ ، جاپان و جزائرِ ہند تک پہنچ گئی تھی، اور ایک ایسی ضخیم کتاب کی سخت ضرورت تھی کہ جس کا مطالعہ و مذاکرہ دعوت میں لگنے والے اور بیرونی اَسفار میں جانے والے کرسکیں ، تاکہ اس سے اُن کے دل و دماغ کو غذا حاصل ہو ، دینی جذبات میں تحریک ہو، دعوت کے ساتھ ان کی اِتباع کا جذبہ اور جان و مال لگادینے کا شوق بیدار ہو اور وہ ہجرت و نصرت ، فضائلِ اعمال و مکارمِ اخلاق کے لیے مہمیز کا کام کرے۔ جب کبھی وہ ان واقعات و حکایات کو پڑھیں اور سنیں تو اس میں ایسا کھوجائیں جیسے چھوٹے موٹے دریا سمندر میں کھوجاتے ہیں اور قد آور انسان پہاڑ کے سامنے پست ہوجاتے ہیں ، یہاں تک کہ اُن کو اپنے یقین پر شبہ ہونے لگے ، اعمال نظروں میں حقیر ہوجائیں اور زندگی بے حیثیت نظر آنے لگے ،اُن کی ہمتیں بلند ہوں ، دلوں میں شوق ہو اور عزم و ارادہ میں پختگی اور جوش ہو۔
اللہ تعالیٰ کی مشیّت و ارادہ سے دعوت کی عزت و فضیلت کے ماسوا، اس بلند پایہ کتاب کی تالیف کا شرف بھی حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کو ملا۔ حالاں کہ اُن کی زندگی کے مشاغل، اَسفار کی کثرت، مہمانوں کا ہجوم، وفود کی آمد اور درس و تدریس کے اشتغال کے ساتھ تصنیف و تالیف کا کوئی امکان نہ تھا، لیکن انھوں نے اللہ کی توفیق و مدد، بلند ہمتی اور قوت و عزیمت سے تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیا اور اس طرح دعوت و تصنیف کو جمع کردیا جن کا اجماع یقیناً سخت دشوار اور مشکل ہے۔ انھوں نے نہ صرف تین ضخیم جلدوں میں صحابۂ کرام ؓ کے حالات جمع کیے اور سیرت و تاریخ اور طبقات کی کتابوں میں جو مواد منتشر تھا اس کو یکجا کردیا، بلکہ امام طحاوی کی کتاب’’ شرح معانی الآثار‘‘ کی شرح تیار کی، جو اللہ کی توفیق سے کئی ضخیم جلدوں میں ہے۔
مصنّف گرامی قدر نے رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے واقعات سے ابتدا کی ہے، اور ساتھ ساتھ صحابہ ؓ کے حالات بھی تحریر کیے ہیں ، اور خاص طور پر دعوتی اور تربیتی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اس طرح یہ دُعاۃ کا ایسا تذکرہ ہے جو کام کرنے والوں کے لیے زادِ راہ اور مسلمانوں کے ایمان و یقین کا سرچشمہ ہے۔
انھوں نے اس کتاب کے اندر صحابۂ کرام ؓ کے وہ حالات و واقعات درج کیے ہیں جن کا کسی ایک کتاب میں ملنا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ یہ قصے اور حکایات مختلف حدیث کی کتابوں یا تاریخ و طبقات کے مجموعوں اور کتب ِمسانید سے حاصل کیے گئے ہیں ۔ اس طرح یہ ایک ایسا دائرۃ المعارف (انسا ئیکلوپیڈیا) تیار ہوگیا ہے جو اس زمانے کی تصویر سامنے رکھ دیتا ہے، جس میں صحابۂ کرام ؓ کی زندگی اُن کے اخلاق و خصائص کے تمام پہلوؤں اور باریکیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔
واقعات و روایات کے اِستقصا اور مکمل بیان کی وجہ سے کتاب میں ایک ایسی تاثیر پیدا ہوگئی ہے جو اُن کتابوں میں نہیں پائی جاتی جو اجمال و اختصار اور معانی کے اظہارپر تصنیف کی جاتی ہیں ۔ اس لیے ایک قاری اس کی وجہ سے ایمان و دعوت، سرفروشی اور فضیلت اور اخلاص و زہد کے ماحول میں وقت گذارتا ہے۔
اگر یہ صحیح ہے کہ کتاب مُؤلّف کا عکسِ جمیل اور جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے اور جس کیفیت و معنویت، جذبہ و لگن ، روح اور تاثیر سے تصنیف کی جاتی ہے اس کی مظہر ہوتی ہے۔ تو میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ کتاب مؤثر ، طاقت ور اور کامیاب ہے ۔چوں کہ صحابۂ کرام ؓ کی محبت اُن کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکی تھی اور دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی، اس لیے مُؤلف نے اس کو حسنِ عقیدت ، جذبۂ اُلفت اور جوشِ محبت کی لایزال کیفیات کے ساتھ تحریر کیا ہے۔
مُؤلّف کی عظمت و اخلاص کے پیش نظر ا س کتاب کو کسی مقدمے کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ وہ خود جہاں تک میرے علم میں ہے ایمان کی قوت، دعوت میں فنائیت اور یک سوئی کے اعتبار سے عطیۂ ربانی اور زمانے کی حسنات میں سے تھے اور ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ ایک ایسی دینی تحریک و دعوت کی قیادت کررہے تھے جو وسعت و طاقت ، عظمت اور اثر انگیزی میں سب سے بڑی تحریک ہے ،لیکن اس ناچیز کو انھوں نے اس کے ذریعہ عزت بخشی اور اس عظیم الشان کام میں اس کا بھی حصہ ہوگیا۔تقرّب الی اللہ میں ، میں نے یہ کلمات تحریر کردیے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو قبولِ عام عطا فرمائے اور بندگانِ خدا کو نفع پہنچائے۔
ابوالحسن علی ندوی( سہارن پور)
؍رجب ھ
ترجمہ از عربی بقلم
مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی
اکتوبر ء
آخری بار ترمیم: