السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

یکم محرم الحرام یوم شہادت امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ ...!

مجلس علمی آفیشل 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر
یکم محرم الحرام یوم شہادت اپنے آقا امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق پر ادنی گنہگار غلام کا خراج عقیدت و تحسین!!!

،،امیر المومنین ،، مراد قلب رسول ،، داماد علی المرتضیٰ ،، فاتح بیت المقدس ،، حاکم عناصر اربعہ ،، شہید ممبر و محراب رسول ،، انتخاب رب العالمین ،، وزیر پیغمبر ،، خلیفہ دوم ،، وکیل ام المومنین ،، فاتح قیصر و کسریٰ ،، میدان عدالت کے نیر تاباں ،، فخر جماعت صحابہ کرام ،، محبت اہلبیت ،، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

دامن اسلام میں وہ عظیم الشان آفتاب و ماہتاب شخصیت ہیں کہ جن تعارف و تعریف صرف زمین پر نہیں آسمان پر بھی ہے جن کی عالم اسلام کے لئے روشن خدمات ،، جرات و بہادری ،، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں ،، فتوحات ،، شاندار کردار ،، اور کارناموں سے دین اسلام کا چہرہ انتہائی معطر ،، چمکدار و روشن ہے

حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تاریخ انسانی کا ایک ایسا انمول و نایاب اسم گرامی ہے جس کی ،، عظمت ،، رعب دبدبہ ،، شجاعت بہادری ،، ،،انصاف ،، عاجزی ،، انکساری ،، ،،فہم و فراست ،، قانون ،، ،، عدالت ،، تقوی ،، ایثار و قربانی ،، غریب پروری ،، خلافت و دیانت ،، محبت اہلبیت عظام ،، اور محبت رسول ،، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں

وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے مثالی محب و محبوب بن کر فاروق اعظم کہلائے۔۔۔۔۔

تعارف

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عمر بن خطاب ہے لقب فاروق ہے اور کنیت ابو حفص ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں آقا دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے چالیس شخصیات مردوں اور گیارہ شخصیات عورتیں نور ایمان و وحی رسول کے نور سے منور ہوچکی تھیں

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عام الفیل کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں ولادت باسعادت ہوئی اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے


قبول اسلام

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ عظیم الشان عظیم المرتبت ہستی ہیں کہ جن کے لئے حضور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعائیں مانگیں
اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب...
جامع ترمذی
اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔۔۔۔


تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے مرید جبکہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مراد رسول ٹھہرے

ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رات کی تاریکی و خانہ کعبہ میں اسلام کی قوت و طاقت شان و شوکت کے لئے مانگیں گئیں دعاؤں کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا چند ہی دنوں میں حضرت عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کے سب سے بڑے خیر خواہ اور جانثار بن گئے

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔ آسمان پر فرشتے بھی عمر فاروق کے اسلام لانے پر خوش ہیں۔
(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر

آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے عبادت تک چھپ کر کی جاتی تھی اب وہی مسلمان اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادات نماز تلاوت قرآن سر انجام دینے لگے

چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام بذات خود اسلام لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے


پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی ۔۔المعجم الکبير للطبرانی

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و مناقب

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.
جامع ترمذی۔
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔

ام المومنین عفیفہ کائنات اماں جان حضرت امی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کانت فی الامم محدثون ليسوابانبياء فان کان فی امتی فعمر.
۔۔طبقات شافعیہ الکبری۔۔
تم سے پہلی امتوں میں محدثین ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل ہیں جن کے بارے میں آقائے دو جہاں سرور کائنات حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت عطافرمائی چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں میں ابھی ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔۔آپ لوگوں میں کے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والے ہیں پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔۔۔۔ جامع ترمذی

آقائے دو جہاں تاجدار مدینہ حضور خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف آپ کے لئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا۔ اس کے بھی احوال بیان فرمائے۔۔۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
اول من يصافحه الحق عمرو اول من تسليم عليه و اول من ياخذ بيده فيدخله الجنة.
سنن ابن ماجه، باب فضل عمر رضی اللہ عنہ
حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کاہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے
مزید یہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن خطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔
الهيثمی، مجمع الزوائد

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذاتی اوصاف

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔
کتاب بخآری۔

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے

حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

.
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجلس میں تشریف لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس حدیث امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت ابو درداء سے بھی روایت مذکور ہے

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور ہمیں نہیں بھولنا۔

ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو

حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسولﷲ۔۔ میں نے ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو دفعہ یاتین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔

المسند، و البخاري

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔ قرآن پاک کے متعدد احکامات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ ،، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم ،، اور شراب کی حرمت ،، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شجاعت ،، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادبیات میں انتہائی ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے ۔۔ ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پالیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا۔ آپ شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے۔ فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے۔ اپنے والد گرامی کی شہرہ آفاق نساب تھے زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیرابی میں بسر کیا مگر محتاط مزاج کی بنا پر احادیث مبارکہ کی روایت بہت کم فرماتے فقہ اوراجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے


حضرت عبداللہ بن عمر ،، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے آپ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا انہوں نے آقائے دو جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا
خاتم الانبیاء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔۔۔

قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔
تاريخ اسلام و روح المعانی علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ

حضرات اہلبیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عقیدت و محبت

شاہ ایران کی شہزادیاں گرفتار ہو کر آئیں صحابہ کرام میں سے کسی نے پوچھا کیا آپ ان کا نکاح اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر سے کریں گے فرمایا اس کا جواب کل کے خطبہ جمعہ میں دوں گا اگلے دن مسجد نبوی میں تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت حسین کو بلا کر شہر بانو نامی شہزادی کا نکاح سیدنا حسین ابنِ علی المرتضیٰ سے کر کے فرمایا وہ شہزادی ہے لہذا شہزادہ ہی اس کا زیادہ مستحق ہے

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آخری زمانے میں اچانک سے حضرت حسنین کریمین کے متعلق ایک آڈر جاری فرمایا کہ یہ دونوں شہزادے کسی جنگ میں شرکت نہیں کریں گے حضرت علی المرتضیٰ نے دریافت فرمایا تو فاروق اعظم نے فرمایا یہ بچے آج جوان ہو رہے ہیں اور جنگ و جہاد میں جانے کا جنون بھی ہے مگر آپ کو معلوم ہے کہ سامنے روضہ مبارک میں سوئے ہوئے رسول جب سے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہم جب جب ہم رسول کو زیارت کے لئے بیتاب ہوتے ہیں تو ان شہزادوں کو ہی دیکھ کر اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں اگر یہ بھی دنیا سے چلے گئے تو کسے دیکھیں گے لہذا یہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر دعا کریں ان کی دعائیں افواج صحابہ کرام کو فتح یاب کریں گیں۔۔

اہلبیت عظام کی محبت و عقیدت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا اور حضرت عمر فاروق داماد علی المرتضیٰ کہلائے

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علمی مقام

اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ جب آقائے دو جہاں حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرامین ،، آپ کے خطوط ،، آپ کے خطبات ،، آپ کے اقوال ،، آپ کے توقیعات ،، اب تک کی سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔۔۔ جن سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوت تحریر برجستگی کلام اور زور تحریر و تقریر کا ایک محتاط سا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بصرہ کے گورنر) کے نام آپ کے ایک خط کے چند کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائی
’’اما بعد (اے ابوموسیٰ!) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو آپ کے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہوجائو گے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا‘‘۔۔۔
فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں اسی طرح آپ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا

دورِ فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات اور طرز حکمرانی

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ ،، شام ،، مصر ،، عراق ،، ،، جزیرہ ،، خوزستان ،، عجم ،، آرمینہ ،، آذربائیجان ،، فارس ،، کرمان ،، خراسان ،، اور مکران ،، فتح کئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں بوقت شہادت اسلام کا پرچم 22 لاکھ مربع میل سے زائد زمین پر لہرا رہا تھا


حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں عدالتیں قائم کیں، عدالتوں کے قاضی مقرر کئے
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن تاریخ کا اجراء کیا ،، جو آج تک جاری ہے ،، مردم شماری کرائی ،، نہریں کھدوائیں ،، کوفہ اور بصرہ جیسے نئے بڑے بڑے شہر آباد ،، دریا کی پیداوار پر محصول لگایا ،، اور محصول مقرر کئے ،، حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی ،، جیل خانہ جات قائم کیا ،، راتوں کو گشت کرکے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا ،، پولیس کا محکمہ قائم فرمایا ،، جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں ،، تنخواہیں مقرر فرمائیں ،، پرچہ نویس مقرر فرمائے ،، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے لئے مکانات تعمیر فرمائے ،، گم شدہ بچوں کی پرورش کے لئے روزینے مقرر فرمائے ،،مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔ مکاتب و مدارس قائم فرمائے ،، معلمین اور مدرسین کے مشاہرے مقرر فرمائے ،، تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر فرمائی ،، وقف کا طریقہ ایجاد فرمایا ،، مساجد کے آئمہ کرام اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر فرمائیں ،، مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کا حکم جاری فرمایا ،، علاوہ ازیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عوام کے لئے بہت سے فلاحی و اصلاحی احکامات اور اصطلاحات جاری کیں
طبقات شافعیہ الکبری امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ

شہادت کی خبر

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمائی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ احد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا
اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان.
صحيح البخاری، کتاب فضائل صحابة
اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں

روضہ اقدس میں قبر:

26 ذوالحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ پر مجوسی النسل فیروز ابو لولو ایرانی مجوسی نے مسجد نبوی مصلیٰ رسول پر نماز فجر کی پہلی رکعت میں زہر الود خنجر سے جان لیوا قاتلانہ حملہ کیا صحابہ کرام کی مظبوط صفوں کی بنا پر یہ قاتل بھاگنے میں ناکام ہوا۔۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقیہ نماز کی امامت کروائی ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا میرا قاتل کون ہے آپ کا یہ قاتل آپ کی زندگی میں آپ کو قتل کی دھمکی دے چکا تھا مگر آپ کے عدل و انصاف کا عالم یہ تھا کہ باجود صحابہ کرام کی اجازت مانگنے کے اس قاتل کا کام تمام کیا جائے آپ نے فرمایا ابھی اس نے مجھے قتل کیا ہی نہیں جرم کیا ہی نہیں تو آپ جرم کرنے سے پہلے مجرم کو سزا کیسے دے سکتے ہیں جب بتایا گیا تو فرمانے لگے اللہ کا شکر ہے میرا قاتل کوئی مسلمان نہیں۔۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے۔۔ آپ کی شہادت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دکھ غم کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی المرتضیٰ جیسی ہستی ساری زندگی کبھی کھل کر نہیں ہنسے سوال کرنے پر فرمایا جب سے عمر فاروق نے اس دنیا کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں گئے ہیں کبھی ہنسی آئی ہی نہیں۔۔


بوقت شہادت ماہرین حکمت و طب نے عرض کیا آپ کے زخم بہت گہرے ہیں انہیں بھرنے کے لیے شہد درکار ہے حضرت عمر فاروق نے فرمایا میرے پاس شہد نہیں ہے صحابہ کرام نے عرض کیا بیت المال میں اس قدر شہد پڑا ہوا ہے اسے استعمال میں کیوں نہیں لاتے آپ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ لیا کہ عمر آپ کے عدل و انصاف کے چرچے پورے دنیا میں تھے مگر بیت المال سے اپنے زخموں میں استعمال کے لیے شہد 🍯 لیا وہ کس کی اجازت سے لیا تو میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا

آخر وقت پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائو اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ام المومنین حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی زارو قطار رو رہی تھیں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام الومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے وہ جگہ اپنی قبر کے لئے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کیونکہ ان احسان بھلایا نہیں جا سکتا انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آگئے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھادو۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھادیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! مجھے اس سے زیادہ کسی اور بات کی خواہش نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔ جب میری روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے تو ایک بار پھر حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت مانگنا۔ اگر وہ بطیب خاطر اجازت دے دیں تو مجھے حجرہ اقدس میں دفن کردینا اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں لے جاکر دفنا دینا۔
یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگادو۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
انسان کے انتقال پر کچھ انسان رویا کرتے ہیں مگر حضرت عمر فاروق اس ہستی کا نام ہے جن کی شہادت کے بعد اسلام قیامت تک روئے گا
آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے آج آپ اس دنیا پر تاریخی انقلاب برپا کے قیامت تک آپنا نام روشن کر کے پہلوئے رسول و پہلوئے صدیق اکبر کے پاس جنت میں سو گئے ہیں

اللہ تعالیٰ آپ کی کامل محبت نصیب فرمائے آمین یارب العالمین

مفتی ابو محمد
 
آخری بار ترمیم:
Top