السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی کی جانب سے تمام چاہنے والوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے عید الفطر مبارک
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

حیاۃ الصحابہ ؓ پیش لفظ

مجلس علمی 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر
کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
پیش لفظ

عنوان: پیش لفظ برائے اردو ترجمہ بقلم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

برائے اردو ترجمہ حیاۃُ الصحابہ ؓ از حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی
یہ کتاب اصلاً عربی میں لکھی گئی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی عالم گیر اور دائمی، مستند اور محبوب، مذہبی اور علمی زبان ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماچکا ہے:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ O}
ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا اور ہم اس کی دائمی طور پر حفاظت کرنے والے ہیں ۔
کسی کتاب اور صحیفہ کی حفاظت کے وعدے میں یہ بات خود بخود شامل ہوجاتی ہے کہ وہ ہمیشہ پڑھا اور سمجھا جائے گا، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں ہے وہ بھی زندہ اور محفوظ ہو، اور بولی اور سمجھی جاتی ہو۔ مرکز نظام الدین دہلی سے شروع ہونے والی تبلیغی دعوت و تحریک ، مصنّفِ کتاب حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کے زمانے میں حجازِ مقدس اور ممالک ِعربیہ میں پہنچنے لگی تھی اور وہاں کے اہلِ علم حضرات اس سے متأثر ہورہے تھے، اس لیے اس کتاب کا اصلاً اور ابتداء ً عربی میں تالیف کرنا مناسب اور بر محل تھا۔ چناں چہ یہ کتاب پہلی مرتبہ دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد کے عربی پریس سے طبع ہونے کے بعد اہل علم کے حلقے اور عربی ممالک میں شوق و احترام کے ساتھ لی گئی۔ پھر دمشق کے دارالقلم سے بڑے اہتمام اور حسنِ طباعت کے ساتھ شائع ہوئی اور دینی و علمی حلقوں میں قبول ہوئی اور ابھی اس کا سلسلہ جاری ہے (امید ہے کہ اس کے ابھی مزید ایڈیشن نکلیں گے)۔
لیکن اس کے ساتھ ضرورت تھی کہ برّصغیر (ہندوپاک) اور بعض اُن بیرونی ممالک کے لیے جہاں ہند وپاک کے لوگ بڑی تعداد میں اِقامت گزیں ہیں اور وہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، اس کا اردو میں سلیس اور معتبر ترجمہ شائع کیا جائے، تاکہ اُن ملکوں میں جانے والی جماعتیں اور خود وہاں کے دینی ذوق اور جذبہ رکھنے والے اور دعوتی کام میں حصہ لینے والے اس سے براہِ راست استفادہ کرسکیں ، اپنی ایمانی چنگاریوں کو فروزاں اور اپنی زندگی اور معاشرت، اخلاق اور جذبات۔ نیز رجحانات کو مؤمنینِ اوّلین اور آغوشِ نبوت کے پروردہ داعیانِ دین کے نقشِ قدم پر ڈال سکیں ۔
عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی لیکن ہر کام کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ چناں چہ حضرت مولانا محمد یوسف کے دیرینہ رفیق اور جانشین ، دعوت کی عظیم الشان محنت کے موجودہ امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحب أَطَالَ اللّٰہُ بَقَائَ ہٗوَنَفَعَ بِہِ الْمُسْلِمِیْنَ کی اجازت اور اِیما سے کتابِ مذکور کے ترجمہ کا آغاز ہوا ۔اور اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت مولوی محمد احسان الحق صاحب (اُستاذ مدرسہ عربیہ رائے ونڈ)کے حصے میں رکھی تھی۔ موصوف مظاہرِ علوم سہارن پور کے فاضل، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ کے مجاز اور خود تبلیغی جماعت کے مدرسۂ فکر و عمل کے تربیت یافتہ اور اسی کی آغوش کے پروردہ ہیں ۔ اس لیے کہ کسی ایسی کتاب کے ترجمہ کے لیے جو کسی دعوت کی ترجمان ہو اور جذبہ و تاثیر سے معمور ہو، محض اس زبان کا جاننا جس میں وہ کتاب ہے اور اس کو اپنی زبان میں منتقل کردینے کی صلاحیت کافی نہیں ، اس کے لیے خود اس جذبہ کا حامل ہونا اور ان مقاصد کا داعی ہونا بھی ضروری ہے جن کی پرورش اور تبلیغ کے لیے یہ کتاب لکھی گئی۔
الحمدللہ !کتاب کے مُترجِم میں یہ سب شرائط پائی جاتی ہیں ، وہ ذاتی اور خاندانی ، ذہنی و علمی اور باطنی و روحانی ہر طریقے پر اس دعوت و جماعت کے اصول و مقاصد سے نہ صرف متفق و متاثر ہیں ، بلکہ اُن کے ترجمان وداعی بھی ہیں ۔ پھر اس اردو ترجمہ پر متعدد اہل علم حضرات نے نظر ڈالی ہے اور اپنے مشوروں سے مستفید بھی کیا ہے، جن میں مفتی زین العابدین صاحب، مولانا محمد احمد صاحب انصاری، مولانا ظاہر شاہ صاحب ، مولانا نذرالرحمن صاحب، مولانا جمشید علی صاحب پاکستانی عُلمَا میں سے اور مرکز نظام الدین دہلی کے بزرگوں اورفُضَلامیں سے حضرت مولانا اِظہارالحسن صاحب کاندھلوی خاص طور پر قابل ِذکر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ یہ ترجمہ ہر طرح سے مفید و مؤثر ثابت ہوگا اور اپنے اہم و بلند مقاصد کو پورا کرے گا۔ آخر میں یہ ملحوظ رہے کہ یہ ترجمہ دینی اصطلاحات سے ناواقف عام سادہ مسلمان کی سطح کو سامنے رکھ کر کیا گیاہے، اور وہ سادہ اور عام فہم ہونے کے ساتھ مؤثر اور دل آویز ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے اور قبولیت سے نوازے۔
ابوالحسن علی ندوی
دار العلوم ندوۃ العُلمَاء لکھنؤ
؍ربیع الاول ھ،؍ستمبرء
 
Top