اہلیہ نعمان بنت محمدہارون
رجسٹرڈ ممبر
فیمینزم کا فریب حصہ دوم.
عورتوں کے مسائل کی ایک دوسری وجہ معذرت کے ساتھ عورت کا اپنے فرائضِ منصبی میں کوتاہی بھی ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ:
*المرأةُ راعيةٌ على بيتِ بَعْلِها وولدِه وهي مسؤولةٌ*
(ترجمہ: اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا)
حدیث پاک کی روشنی میں ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اور اخلاقی تعمیر کی مکلف ہے جب اس فریضے میں غفلت برتی جاتی ہے تو نتیجتاً معاشرے میں ایسے افراد کی کثرت جنم لیتی ہے جو نہ اچھے شوہر بن پاتے ہیں، نہ اچھے بھائی، نہ پروقار باپ نہ فرمانبردار بیٹا پھر جب خود عورت کی کمی کے باعث ایک دوسری عورت تکلیف کا شکار ہوتی ہے تو جہاں سے درستگی کی ضرورت ہے اس مقام کے بجائے دوسرے مقامات پر کھینچ تان مزید بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
رہی بات اس تمام قضیہ میں مرد کے قصور اور کردار کی تو ہم ہرگز بھی اُسے بری الذمہ قرار دے کر خلعتِ براٌت نہیں پہنا رہے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے کے مجاز ہیں کیونکہ حکمِ ربانی ہے:
*وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ- الاية*
(ترجمہ: اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا)
لیکن ہمیں اتنا ضرور دیکھنا ہوگا کہ مرد مجرم ،مرد ملزم، مرد ظالم اور عورت مظلوم کے نعروں سے کوئی حل نکل سکتا تو کئی صدیوں سے سنائی دینے والا یہ شور تھم چکا ہوتا مگر یہ شور تو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جو خود اس بات پر گواہ ہے کہ جس سمت مسائل کا حل ڈھونڈا جا رہا ہے یقیناً وہ راستہ بدلنے کی ضرورت ہے- بالکل کسی طبیب کے ناکام نسخے کی مانند!!
اور وہ متبادل راستہ ایک ہی راستہ ہے جو اس پریشان حال عورت کے خالقِ حقیقی کی طرف سے آ تا بھی ہے اور اس ہی کی طرف جاتا بھی ہے۔ خوشی، سکون، راحت اور قرار کے تمام خزانے اس ہی کے ہیں ۔ سُکھوں میں بے چینیوں کا درد بھر دینا اور اذیتوں میں قرار و سکون کا امرت پلانا یہ سب اس ہی کے کھیل ہیں ۔ اُس ہی کے عشق کا امرت پی کر 65 پینسٹ سالہ سُمیّہ رضی اللہ تعالی عنہا جسم کے دو ٹکڑے کروا کر بھی راحتِ قلبی پا گئیں۔ دوسری طرف جوان جہان آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا میخیں گڑوا کر بھی مطمئن نظر آتی ہیں کہ
*رَبِّ ابنِ لِي عِندَكَ بَيتًا فِي الجَنَّةِ- الاية*
(ترجمہ: اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا)
یہ اس ہی دوستی کا ثمرہ ہے کے ہاتھوں میں چھالے، جسم کام کی تھکن اور پیٹ فاقوں کی مشقت سے بےحال مگر چہرے پر طمانیت کا سکون اور قلب و روح میں رضا بلقدر کی سرشاری، نہ زبان پر شکوہ ہے نہ دل میں بے چینی!!
جی اطمینان و سکون کا یہ استعارہ لختِ جگرِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم "فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا"!!
یہ وہی رنگ ہے کہ جب اس کا سراغ کوئی پا جائے تو عین غم کی ذات خوشی بن جاتی ہے اور بے چینی قرار!!
*آنکھوں کی سیاہی میں جس نے روشنی بخشی*
*اس نے ہمیں غم دے کر غم میں ہی خوشی بخشی*
(تائب صاحب)
یہ وہی خوشی تھی کہ تین مہینے چولھا نہ جلا، کھجور وہ بھی گنتی کے چند اور پانی کے چند گھونٹ مگر نا شکوہ نہ شکایت ، نہ آ ہ و بکا نہ فغاں مگر سکونِ خانگی اور تسکینِ قلبی کا وہ خزانہ کہ ہفتِ اقلیم پا کر بھی کوئی اس قرار کی دھول نہ پا سکے!!
مقصدِ حقیقی ، اصلی اور عظیم یعنی دینِ اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے انتظام میں ہمہ وقت معاون اور مددگار بلکہ خود بھی مشغول و منہمک یہ قلب "قلبِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا" ہے۔
بس بات اس راستے کا راہی بننے کی ہے۔ آئیے! اپنی ماؤں سے نشانِ منزل لیتے ہیں ان ہی کے راستے پر سہج سہج کر چلتے ہیں ،سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں اور ربِ کریم سے دوستی لگانے والوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنمائی میں سخی داتا سے اس کے رنگ "صبغت اللہِ " کی خیرات مانگتے ہیں کہ ہمارے قلوب بھی اس رنگ میں رنگ جائیں تو انگ انگ سے صدا آ ے۔
*أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ- الاية*
(ترجمہ: خبردار! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
اور رہی مردوں کو کان سے پکڑ کر سدھارنے کی سعی میں ہمارا حصہ تو بس اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ محبت اور منت دونوں راستوں سے انہیں علماء اور مشائخ یعنی اس رنگ سے رنگے ہوئے اور رنگنے والے " شاہی صَبّاغ " کی مجالس تک پہنچا کر اپنے دستِ دعا رات کی تنہائیوں میں بے حد طاقتور مگر بے حد کریم پروردگار کی بارگاہ میں اٹھا دیں کہ:
*إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلهَا بَيْنَ إِصْبعيَنِ مِنْ أَصَابِع الرحمنِ ، كَقَلْب وَاحِد ، يُصرِّفهُ حَيْثُ يَشَاءُ – الحديث*
(ترجمہ: بنى آدم کے دل الله تبارك و تعالى کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں جیسے ایک دل ہوتا ہے، الله تبارك و تعالى ان کو پھیرتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔)
----------------------------------------------------------------------------------
عورتوں کے مسائل کی ایک دوسری وجہ معذرت کے ساتھ عورت کا اپنے فرائضِ منصبی میں کوتاہی بھی ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ:
*المرأةُ راعيةٌ على بيتِ بَعْلِها وولدِه وهي مسؤولةٌ*
(ترجمہ: اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا)
حدیث پاک کی روشنی میں ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اور اخلاقی تعمیر کی مکلف ہے جب اس فریضے میں غفلت برتی جاتی ہے تو نتیجتاً معاشرے میں ایسے افراد کی کثرت جنم لیتی ہے جو نہ اچھے شوہر بن پاتے ہیں، نہ اچھے بھائی، نہ پروقار باپ نہ فرمانبردار بیٹا پھر جب خود عورت کی کمی کے باعث ایک دوسری عورت تکلیف کا شکار ہوتی ہے تو جہاں سے درستگی کی ضرورت ہے اس مقام کے بجائے دوسرے مقامات پر کھینچ تان مزید بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔
رہی بات اس تمام قضیہ میں مرد کے قصور اور کردار کی تو ہم ہرگز بھی اُسے بری الذمہ قرار دے کر خلعتِ براٌت نہیں پہنا رہے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے کے مجاز ہیں کیونکہ حکمِ ربانی ہے:
*وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ- الاية*
(ترجمہ: اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا)
لیکن ہمیں اتنا ضرور دیکھنا ہوگا کہ مرد مجرم ،مرد ملزم، مرد ظالم اور عورت مظلوم کے نعروں سے کوئی حل نکل سکتا تو کئی صدیوں سے سنائی دینے والا یہ شور تھم چکا ہوتا مگر یہ شور تو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جو خود اس بات پر گواہ ہے کہ جس سمت مسائل کا حل ڈھونڈا جا رہا ہے یقیناً وہ راستہ بدلنے کی ضرورت ہے- بالکل کسی طبیب کے ناکام نسخے کی مانند!!
اور وہ متبادل راستہ ایک ہی راستہ ہے جو اس پریشان حال عورت کے خالقِ حقیقی کی طرف سے آ تا بھی ہے اور اس ہی کی طرف جاتا بھی ہے۔ خوشی، سکون، راحت اور قرار کے تمام خزانے اس ہی کے ہیں ۔ سُکھوں میں بے چینیوں کا درد بھر دینا اور اذیتوں میں قرار و سکون کا امرت پلانا یہ سب اس ہی کے کھیل ہیں ۔ اُس ہی کے عشق کا امرت پی کر 65 پینسٹ سالہ سُمیّہ رضی اللہ تعالی عنہا جسم کے دو ٹکڑے کروا کر بھی راحتِ قلبی پا گئیں۔ دوسری طرف جوان جہان آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا میخیں گڑوا کر بھی مطمئن نظر آتی ہیں کہ
*رَبِّ ابنِ لِي عِندَكَ بَيتًا فِي الجَنَّةِ- الاية*
(ترجمہ: اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا)
یہ اس ہی دوستی کا ثمرہ ہے کے ہاتھوں میں چھالے، جسم کام کی تھکن اور پیٹ فاقوں کی مشقت سے بےحال مگر چہرے پر طمانیت کا سکون اور قلب و روح میں رضا بلقدر کی سرشاری، نہ زبان پر شکوہ ہے نہ دل میں بے چینی!!
جی اطمینان و سکون کا یہ استعارہ لختِ جگرِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم "فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا"!!
یہ وہی رنگ ہے کہ جب اس کا سراغ کوئی پا جائے تو عین غم کی ذات خوشی بن جاتی ہے اور بے چینی قرار!!
*آنکھوں کی سیاہی میں جس نے روشنی بخشی*
*اس نے ہمیں غم دے کر غم میں ہی خوشی بخشی*
(تائب صاحب)
یہ وہی خوشی تھی کہ تین مہینے چولھا نہ جلا، کھجور وہ بھی گنتی کے چند اور پانی کے چند گھونٹ مگر نا شکوہ نہ شکایت ، نہ آ ہ و بکا نہ فغاں مگر سکونِ خانگی اور تسکینِ قلبی کا وہ خزانہ کہ ہفتِ اقلیم پا کر بھی کوئی اس قرار کی دھول نہ پا سکے!!
مقصدِ حقیقی ، اصلی اور عظیم یعنی دینِ اسلام کی ترویج اور تبلیغ کے انتظام میں ہمہ وقت معاون اور مددگار بلکہ خود بھی مشغول و منہمک یہ قلب "قلبِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا" ہے۔
بس بات اس راستے کا راہی بننے کی ہے۔ آئیے! اپنی ماؤں سے نشانِ منزل لیتے ہیں ان ہی کے راستے پر سہج سہج کر چلتے ہیں ،سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں اور ربِ کریم سے دوستی لگانے والوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کی رہنمائی میں سخی داتا سے اس کے رنگ "صبغت اللہِ " کی خیرات مانگتے ہیں کہ ہمارے قلوب بھی اس رنگ میں رنگ جائیں تو انگ انگ سے صدا آ ے۔
*أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ- الاية*
(ترجمہ: خبردار! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔)
اور رہی مردوں کو کان سے پکڑ کر سدھارنے کی سعی میں ہمارا حصہ تو بس اتنا ہی ہوسکتا ہے کہ محبت اور منت دونوں راستوں سے انہیں علماء اور مشائخ یعنی اس رنگ سے رنگے ہوئے اور رنگنے والے " شاہی صَبّاغ " کی مجالس تک پہنچا کر اپنے دستِ دعا رات کی تنہائیوں میں بے حد طاقتور مگر بے حد کریم پروردگار کی بارگاہ میں اٹھا دیں کہ:
*إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلهَا بَيْنَ إِصْبعيَنِ مِنْ أَصَابِع الرحمنِ ، كَقَلْب وَاحِد ، يُصرِّفهُ حَيْثُ يَشَاءُ – الحديث*
(ترجمہ: بنى آدم کے دل الله تبارك و تعالى کی دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں جیسے ایک دل ہوتا ہے، الله تبارك و تعالى ان کو پھیرتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔)
----------------------------------------------------------------------------------