السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا.......... **یحیی سنوار شہید**

بنت عبد اللہ

رجسٹرڈ ممبر
ایک ستارہ تھا میں کہکشاں ہوگیا**

**یحیی سنوار شہید**




اے قربانیوں کی مسلسل داستاں!! سلام

اے استقلال کے کوہِ گراں!! سلام

تیرے حوصلے کو سلام

تیری جرأت کو سلام

تیری ہمت کو سلام

تیرے زخم سے چور بدن کو سلام

تیرے شیر جگر کو سلام

جان نکلتے نکلتے کفر کو للکارنے والے

تیرے استقلال کو سلام



لہو کے قطروں کے بیج بو کر

ہزار گلشن سجانے والو

خوشی خوشی سب سے آگے آگے

لپک کے مشہد کو جانے والو

تمام جھوٹی خدائیوں کے

صنم کدوں کو گرانے والو

تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں

افق کے اُس پار جانے والو



فلسطین کا ایک اور شہزاد اپنے جسم کو زخموں سے چور کروا کر افق کے اس پار جاچکا ہے۔

یحیی سنوار شہید پر کیا لکھوں؟

ایسے عظیم انسان کے لئے الفاظ کہاں سے لے کر آؤں؟

داستان حیات کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں؟

اس کے حوصلے اور استقامت کے بارے میں کیا لکھوں...

کچھ سمجھ نہیں آتا...

اس کی زندگی تھی ہی کیا...

جہاد... عزم... استقامت... قید و بند... زخم...



میں سوچ رہی تھی کہ کونسی دکھ کی گھڑی تھی جو اس پر نہ آئی...

وہ کونسا ظلم تھا جو اس پر نہ ڈھایا گیا ہو...

مصائب کا وہ کونسا پہاڑ تھا جو اس پر نہ توڑا گیا ہو...

ایذا کا وہ کونسا طریقہ تھا جو اسے روکنے کے لئے استعمال نہ کیا گیا ہو...

مگر... مگر... وہ بڑھتا ہی گیا...

روکنے والے اسے روک نہ سکے...

زخموں کے ساتھ بڑھتا ہی گیا...

سالہا سال قید میں رہنے کے باوجود بڑھتا ہی چلا گیا...



ہر قسم کے جبر کی تلوار اس پر اٹھائی گئی...

ہر قسم کا نیزہ اس پر سونتا گیا

مگر اس کا ایک ہی مقصد حیات تھا...

ایک ہی جستجو تھی...

ایک ہی مشن تھا... جہاد! قدس کی حفاظت...

وہ آخری دم تک اپنے زخمی جسم کی باڑ بنائے کفار کو دین اسلام پر حملہ کرنے سے روکے رہا...



اسے حالانکہ غزہ چھوڑنے کی پیشکش بھی کی گئی مگر وہ لاکھ خطروں کے باوجود،

لاکھ خدشات کے باوجود پیشکش ٹھکرا کر وہیں کا ہو کر رہ گیا...

وہ تو ان چیزوں کو کچھ بھی نہ سمجھ رہا تھا...

یہ سب ظلم و ستم اس کے لئے ایک ہوا کے جھونکے کی طرح تھے...

وہ تو خوشی میں مگن تھا کہ اس کی منزل اسے قریب نظر آرہی تھی...



اس شیر نے یہ سونے کے پانی سے لکھنے والے الفاظ بھی ادا کیے تھے

**"شہادت کی موت مرے لئے تحفہ ہے"**

اور اسی اصلی زندگی، اسی تحفے کی جد و جہد میں وہ غزہ کی ٹوٹی پھوٹی بستی میں آخری دم تک لڑتا رہا...

لڑتا رہا...

دراصل اسے شہادت سے محبت ہوگئی تھی...

اس فانی دنیا سے نفرت ہوگئی تھی...



خالد بن ولید کا کردار آج اس میں نظر آیا...

زید بن حارثہ، ابن رواحہ، جعفر بن ابی طالب (رضی اللہ عنہم) کے شوق شہادت کی ایک جھلک آج کی ماڈرن دنیا میں،

اس صحابہ کے غلام میں نظر آئی اور پتا لگا کہ یہ لوگ قیامت تک رہیں گے!



چور جسم ہے! خون بہہ رہا ہے

اور اس وقت بھی دشمن پر ایک لکڑی کے ذریعے حملہ کرنے والے کو میرے خیال میں یحیی سنوار نہیں بلکہ

اسے شیر کہنا چاہیے!

اس نے اپنی جد و جہد سے بھری زندگی کے بعد ایسی موت حاصل کی ہے جسے موت نہیں حیات کہتے ہیں!

جس موت کی حسرت لئے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ آخرت کو سدھار گئے...

یحیی سنوار جس انداز میں گئے ہیں...

حوصلے استقامت کا نشان بن کر گئے ہیں...

اس کی موت ہماری زندگیوں سے افضل ہے!

میں اس سے زیادہ اس شیر، اس شہزادے کے لئے کیا لکھوں کہ لغت میں الفاظ بھی ہاتھ جوڑ رہے ہیں...



لہذا اسی پر اکتفا کرتی ہوں...

یہ چند الفاظ اس فلسطین کے شہزادے پر لکھ کر تو میں صرف خریدران یوسف میں شامل ہونا چاہتی ہوں...

اللہ! ان چند ٹوٹے پھوٹے بکھرے الفاظ کا اجر میرے نامہ اعمال میں لکھ دینا

او یہ شیر جو اتنی خوبصورت موت کا تمغہ اپنے سرخ سینے پر سجا کر جنت الفردوس کا شہزادہ بن گیا ہے...

اس طرح کے اور شیر اور شہزادے ہماری نسلوں میں پیدا فرما...

آمین...

بنت عبد الحق... اسلام آباد...
 
Top