بنت عبدالحق اسلام آباد
رجسٹرڈ ممبر
"شیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ
مسجد نبویؐ شریف کے امام و خطیب الشیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ پاکستان کا 7 روزہ دورہ مکمل کرکے کل بدھ کے روز واپس تشریف لے گئے۔ اس دوران میں چونکہ اسپتال میں تھا، اس لئے شیخ کے حوالے سے کچھ لکھ نہیں سکا۔حالانکہ شیخ شریم کے بعد وہ میری پسندیدہ ترین شخصیت ہیں۔ فیس بک میں سرچ کیا کہ شاید ہی کسی نے کچھ لکھا ہو، مگر رسمی خبروں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ اس لئےاہل پاکستان کو شاید اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ شیخ صلاح کتنی بڑی شخصیت اور کس پائے کی ہستی ہیں۔ اس حوالے سے چند سطور آپ کی نذر۔۔۔۔
مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ کی قائم کردہ مبارک مسجد ’’المسجد النبوی‘‘ کے کئی امام ہیں، سبھی ائمہ بے مثال ہیں، جن کو خدا رب العزت نے اپنے محبوبؐ کے مصلے کیلئے چنا ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ مگر شیخ صلاح البدیر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ انہیں حق تعالیٰ نے ایسے ہی دردِ دل، چشم پرنم اور سوز و گداز سے نوازا ہے، جیسے حرم مکی کے سابق امام شیخ سعود بن ابراہیم الشریم کو۔ بلکہ وہ شیخ شریم سے بھی شاید زیادہ رقت قلبی اور خشیت الٰہی سے لبریز ہیں۔ نمازوں میں خود بھی روتے ہیں اور نمازیوں کی بھی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ رمضان میں تو ان پر عجب حال طاری ہوتا ہے۔ مسجد حرام کی حالیہ تاریخ میں
شیخ صلاح البدیر سعودی گورنری الاحساء کے شہر الہفوف سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں وہ 1971ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔آپ جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ کے فاضل ہیں۔ 1419ھ میں سعودی حکومت نے انہیں مسجد نبویؐ میں امام و خطیب مقرر کیا۔ اس وقت وہ مسجد نبویؐ میں امامت و خطابت کے ساتھ مدینہ منورہ کی ہائی کورٹ میں بطور جج بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ 2005ء میں وہ مسجد حرام میں تراویح کی امامت کے منصب پر فائز کئے گئے۔ مگر وہ کعبہ شریف کے جلال کی تاب نہ لا سکے۔ نمازوں میں ان پر بہت زیادہ رقت طاری ہو جاتی۔ بسا اوقات رکعت پوری کرنا ہی مشکل ہو جاتی۔ 1427ھ (2005ء) ان کا حرم مکی میں پہلا سال تھا اور پھر اگلے برس (2006ء) کے رمضان المبارک کی تراویح میں شیخ البدیر پر کچھ عجیب ہی کیفیت طاری ہوگئی۔
اس سال جب شیخ صلاح البدیر تراویح میں سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 30 تک پہنچے تو ان پر ایسی رقت طاری ہوگئی کہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ان کے ساتھ نمازیوں کی چیخیں بھی بلند ہوگئیں۔ یقینا اس شدت گریہ نے نہ صرف انس و جن، بلکہ حرم کے در و دیوار اور مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کو بھی رلا دیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حرم شریف کی تاریخ کا سب سے شدید گریہ (اقویٰ بکاء فی تاریخ الحرم المکی) قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی ویڈیو حاضر خدمت ہے۔
شیخ صلاح البدیر دوران تلاوت جہاں بھی آخرت کا ذکر آتا ہے تو ایسے روتے ہیں جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سسکیاں لے کر روتا ہے۔ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے آخرت اور اس کی سختیاں بیان کی ہیں، وہاں آکر شیخ کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور اپنے آپ کو شیخ بمشکل قابو کرتے ہیں۔ چاہے وہ نماز ہو یا جمعہ کا خطبہ ہو۔
نمازوں میں شدت گریہ و زاری کی وجہ سے زیادہ وقت بھی صرف ہو جاتا اور شدت گریہ کمزور دل نمازیوں کیلئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ اس لئے شیخ صلاح البدیر کا مسجد الحرام سے پھر مسجد نبویؐ تبادلہ کر دیا گیا۔ کیونکہ مکہ مکرمہ اور مسجد حرام میں جلال ہے اور مدینہ طیبہ اور مسجد نبویؐ آمنہ کے لخت جگر نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جمال حسن آرا کا مظہر ہے۔
اس کے علاوہ مدینہ منورہ کے باشندوںنے بھی اصرار کیا تو شیخ صلاح البدیر کو دوبارہ مسجد نبویؐ کا امام مقرر کیا گیا۔ مسجد نبویؐ میں بھی آکر شیخ صلاح کی رقت قلبی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بلکہ اب تو نمازوں کے ساتھ وہ خطبوں کے دوران بھی روتے اور رُلاتے رہتے ہیں۔
شیخ صلاح البدیر کا شمار عالم اسلام کے ان بابغہ روزگار قرائے کرام میں ہوتا ہے، جن کی تلاوت بہت زیادہ سنی جاتی ہے۔ وہ حفص عن عاصم کی روایت میں تلاوت کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے خطبے بھی آن لائن سنے جاتے ہیں۔ ان کے کئی خطبے بہت زیادہ مشہور ہوچکے ہیں۔ جن کا اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
مسجد نبویؐ میں ختم قرآن کے موقع پر آخری دعا بھی شیخ صلاح کراتے ہیں۔ اس دوران ان پر رقت کی جو کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی رقت آمیز دعائوں کے کئی کلپس سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔ (ضیاء چترالی)
مسجد نبویؐ شریف کے امام و خطیب الشیخ صلاح البدیر حفظہ اللہ تعالیٰ پاکستان کا 7 روزہ دورہ مکمل کرکے کل بدھ کے روز واپس تشریف لے گئے۔ اس دوران میں چونکہ اسپتال میں تھا، اس لئے شیخ کے حوالے سے کچھ لکھ نہیں سکا۔حالانکہ شیخ شریم کے بعد وہ میری پسندیدہ ترین شخصیت ہیں۔ فیس بک میں سرچ کیا کہ شاید ہی کسی نے کچھ لکھا ہو، مگر رسمی خبروں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ اس لئےاہل پاکستان کو شاید اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ شیخ صلاح کتنی بڑی شخصیت اور کس پائے کی ہستی ہیں۔ اس حوالے سے چند سطور آپ کی نذر۔۔۔۔
مدینہ منورہ میں نبی کریمؐ کی قائم کردہ مبارک مسجد ’’المسجد النبوی‘‘ کے کئی امام ہیں، سبھی ائمہ بے مثال ہیں، جن کو خدا رب العزت نے اپنے محبوبؐ کے مصلے کیلئے چنا ہے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ مگر شیخ صلاح البدیر کی بات ہی کچھ اور ہے۔ انہیں حق تعالیٰ نے ایسے ہی دردِ دل، چشم پرنم اور سوز و گداز سے نوازا ہے، جیسے حرم مکی کے سابق امام شیخ سعود بن ابراہیم الشریم کو۔ بلکہ وہ شیخ شریم سے بھی شاید زیادہ رقت قلبی اور خشیت الٰہی سے لبریز ہیں۔ نمازوں میں خود بھی روتے ہیں اور نمازیوں کی بھی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ رمضان میں تو ان پر عجب حال طاری ہوتا ہے۔ مسجد حرام کی حالیہ تاریخ میں
شیخ صلاح البدیر سعودی گورنری الاحساء کے شہر الہفوف سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں وہ 1971ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی۔آپ جامعہ امام محمد بن سعود الاسلامیہ کے فاضل ہیں۔ 1419ھ میں سعودی حکومت نے انہیں مسجد نبویؐ میں امام و خطیب مقرر کیا۔ اس وقت وہ مسجد نبویؐ میں امامت و خطابت کے ساتھ مدینہ منورہ کی ہائی کورٹ میں بطور جج بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔ 2005ء میں وہ مسجد حرام میں تراویح کی امامت کے منصب پر فائز کئے گئے۔ مگر وہ کعبہ شریف کے جلال کی تاب نہ لا سکے۔ نمازوں میں ان پر بہت زیادہ رقت طاری ہو جاتی۔ بسا اوقات رکعت پوری کرنا ہی مشکل ہو جاتی۔ 1427ھ (2005ء) ان کا حرم مکی میں پہلا سال تھا اور پھر اگلے برس (2006ء) کے رمضان المبارک کی تراویح میں شیخ البدیر پر کچھ عجیب ہی کیفیت طاری ہوگئی۔
اس سال جب شیخ صلاح البدیر تراویح میں سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 30 تک پہنچے تو ان پر ایسی رقت طاری ہوگئی کہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ان کے ساتھ نمازیوں کی چیخیں بھی بلند ہوگئیں۔ یقینا اس شدت گریہ نے نہ صرف انس و جن، بلکہ حرم کے در و دیوار اور مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کو بھی رلا دیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے حرم شریف کی تاریخ کا سب سے شدید گریہ (اقویٰ بکاء فی تاریخ الحرم المکی) قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی ویڈیو حاضر خدمت ہے۔
شیخ صلاح البدیر دوران تلاوت جہاں بھی آخرت کا ذکر آتا ہے تو ایسے روتے ہیں جیسے کوئی بچہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سسکیاں لے کر روتا ہے۔ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے آخرت اور اس کی سختیاں بیان کی ہیں، وہاں آکر شیخ کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے اور اپنے آپ کو شیخ بمشکل قابو کرتے ہیں۔ چاہے وہ نماز ہو یا جمعہ کا خطبہ ہو۔
نمازوں میں شدت گریہ و زاری کی وجہ سے زیادہ وقت بھی صرف ہو جاتا اور شدت گریہ کمزور دل نمازیوں کیلئے خطرے کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ اس لئے شیخ صلاح البدیر کا مسجد الحرام سے پھر مسجد نبویؐ تبادلہ کر دیا گیا۔ کیونکہ مکہ مکرمہ اور مسجد حرام میں جلال ہے اور مدینہ طیبہ اور مسجد نبویؐ آمنہ کے لخت جگر نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جمال حسن آرا کا مظہر ہے۔
اس کے علاوہ مدینہ منورہ کے باشندوںنے بھی اصرار کیا تو شیخ صلاح البدیر کو دوبارہ مسجد نبویؐ کا امام مقرر کیا گیا۔ مسجد نبویؐ میں بھی آکر شیخ صلاح کی رقت قلبی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ بلکہ اب تو نمازوں کے ساتھ وہ خطبوں کے دوران بھی روتے اور رُلاتے رہتے ہیں۔
شیخ صلاح البدیر کا شمار عالم اسلام کے ان بابغہ روزگار قرائے کرام میں ہوتا ہے، جن کی تلاوت بہت زیادہ سنی جاتی ہے۔ وہ حفص عن عاصم کی روایت میں تلاوت کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے خطبے بھی آن لائن سنے جاتے ہیں۔ ان کے کئی خطبے بہت زیادہ مشہور ہوچکے ہیں۔ جن کا اردو سمیت کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
مسجد نبویؐ میں ختم قرآن کے موقع پر آخری دعا بھی شیخ صلاح کراتے ہیں۔ اس دوران ان پر رقت کی جو کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی رقت آمیز دعائوں کے کئی کلپس سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں۔ (ضیاء چترالی)