بنت عبد الحق اسلام آباد
رجسٹرڈ ممبر
"بہن سے تو مل لو بیٹا!"یہ وہ الفاظ تھے جو کہنے میں تو ہلکے تھے مگر اس وقت دل و دماغ پر ہتھوڑے سے بھی زیادہ بھاڑی تھے......زندگی میں پہلی بار آنسو ضبط کرنے کی کڑواہٹ اور مشکل کا احساس ہوا تھا......مگر یہ آنسو....آنسو کہیں کے!!....ہونہہ......جتنا روکو اتنا ہی زور لگاتے ہیں.....مجبور کر کے رخ دیتے ہیں......لاکھ کوشش کے باوجود بھی اس وقت میری آنکھوں کے کٹورے میں چند قطرے نمودار ہوگئے تھے......میری پیاری بہن!تمھارے ساتھ میرا وقت گو کہ چودہ سال گزرا ،مگر یہ چودہ سال گویا چودہ ماہ یا اس سے بھی کم،کودہ ہفتوں کی مانند گزر گیا......مجھے وہ لمحے اب بھی نہیں بھولے جو تمھارے ساتھ گزرے تھے.....وہ خوبصورت لمحات جو اب ماضی بن چکے ہیں وہ لگتا ہے کہ اب کبھی نہیں مٹیں گے......مجھے آج تمہاری یاد اس لئے آئی کہ آج میں نے گاڑی میں اپنی برابر والی سیٹ پر دیکھا تو تم نہیں تھیں....وہ جگہ خالی تھی....ذہن میں یکایک ایک تیز روشنی کا جھمکا ہوا تھا اور ایک ساتھ جسے بہت سے تارے چھناک سے ٹوٹ گئے تھے....ذہن کی سطح پر بہت سی سہانی یادیں ابھری تھیں....ایک دھنلا سا نقش نمودار ہوا پھر وہ صاف ہوتا گیا.....وہ تمہارا چہرہ تھا...معصومیت سے بھرا....ہاں میری بہنا جانی!وہ تم تھیں......!جو میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی....وہ دن بھی کتنے اچھے تھے!......آج گاڑی میں سب تھے......امی،ابو،بہن،میں،مگر میری داہنی جانب تمہاری کمی تھی....گاڑی میں گو کہ دیکھنے کو تو وسعت ہوگئی تھی،مگر در حقیقت یہی وسعت دل پر تنگی پیدا کیے جارہی تھی.....میرے ذہن میں تمہاری یادیں ابھر رہی تھیں!....... تم صرف ایک بہن نہیں تھی...ایک "اچھی"بہن تھی!ہاں...جو مجھے ڈانٹتی نہیں تھی....جو مجھے جھرکتی نہیں تھی.....تم آج ہمارے گھر میں موجود نہیں مگر تمہارے اخلاق،کردار کی خوبصورتی یاد ہے جس کے لیے میں تڑپتی ہوں....ہاں راتوں کو تمہاری یاد کے تکیے پر میں اب بھی روتی ہوں ،اس فرشتہ صفت بہن کو یاد کر کے جس کی زبان مٹھاس ٹپکتی تھی اور جس کا لہجہ اگر مصلحت و حکمت سے سخت بھی ہوتا،تب بھی کانوں میں رس گھول رہا ہوتا......تم نے واقعتا مجھے بڑی بہن کی محبت دی....جب تم یہاں تھیں تو مجھے تمہاری قدر و قیمت کا احساس نہیں تھا .....میں تو تمہاری محبتوں اور حسن خلق کا جواب نہیں دے سکی.....میری بہنا!میں بہت شرمندہ ہوں کہ تمہاری محبت کا جواب بد تمیزی سے دیتی رہی....تمہیں تنگ بھی کرتی رہی مگر تمہارا ظرف اتنا بڑا...اللہ اکبر!کہ تم نے نہ کبھی مرے نازک دل پر طنز و طعنے کا تھپڑ مارا،نہ میرا دل توڑا،تم نے ہر وقت کی فضول کی روک ٹوک،ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا سختی سے میری زندگی مشکل نہیں کی.....تم نے مرے ساتھ نوکروں کا سا برتاؤ نہیں کیا....جیسا کہ اکثر بہنیں کرتی ہیں....... تم نے میری بڑی سے بڑی غلطی کو بھی جس پر میں ڈرنے لگتی،"کوئی بات نہیں،گغلتی سے ہوا ہے جانی"کہہ کر معاف کردیا......ہاں!اگر کبھی غصے کی بات ہوتی یا ڈانٹنا ضروری ہوتا تو تم ڈانٹتی ضرور تھی،مگر تمہارا لہجہ زہریلا نہیں ہوتا تھا،ہاں دل چیرنے والا نہیں...بلکہ تمہارا ڈانٹنا بھی مجھے اچھا لگتا تھا...تم خفا ضرر ہوتی تھی مگر گھنٹہ دو گھنٹے بعد ہی پھر سے ویسے ہی مسکراتے ہوئے آجاتی اور "جانی"کہہ کہہ کر مجھے رازی کرتی اور پیار کرتی....کبھی تم سے ڈانٹ کھانے بعد میں ناراض ہو کر لیٹ جاتی مگر مجھے دل میں پتا ضرور ہوتا کہ ابھی کوئی آئے گا اور مرے کانوں میں رس گھول کر مرے سرہانے بیٹھ کر پیار کرے گا.....وہ تم ہوتی تھیں!تم ایسی تھی جو مجھے خود پر فوقیت دیتی ،ایثار کی بہترین مثال میں نے تم میں دیکھی.....میں تم سے کوئی چیز مانگتی یامتالبہ کرتی تو تم انکار نہ کرتی اور اگر انکار کر بھی دیتی تو ایسے احسن و اجمل اندر و طریقے سے کہ مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ تم انکار کر رہی ہو-اس کے بعد تم بہت دائر تک مجھے پیار کرتی رہتی.......وہ میری رازداں جس سے بلا جھجھک میں ہر بات کہہ دیتی تھی....وہ ہمدرد جو مجھے نیکی کا رستہ دکھتی اور نیک اعمال پر ابھرتی.....وہ بہن جس نے نصیحت تو بہت کم کی،جب بھی کی اپنے عمل سے کی.....ہاں جو مجھے نصیحت کرتی تھی....فضیحت نہیں!میری بہنا!میں تمھارے خوبصورت رویے کا جواب نہ دے سکی....تمھارے جانے کے بعد جب مجھے تھوڑی تھوڑی دھوپ کا احساس ہوا تو مرے دل سے اہ نکلی کہ تمہارا پیار بھرا سایہ مرے اوپر کتنی بری نعمت تھا....رات جو جب مجھے تمھارے لمس محسوس نہیں ہوئے اس پیار کے جو تم سونا یسے پہلے کرتی تھی تو مجھے تمہاری یاد آئی.....تم میں غلطیاں ضرور تھیں،ایسی بات نہیں،بشر ہونے کے ناطے تم میں کچھ غصہ بھی ضرور تھا مگر تمہاری اچھائیاں تمہاری برائیوں پر غالب آئی ہوئی ہیں.....مجھے تمھارے جانے کے بعد ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے بڑے بوڑھوں کی کہ ایسے اخلاق کا گلدستہ دوسروں کو دو کہ تمھارے جانے کے بعد لوگ سکوں کا سانس نہ لیں کہ دفع ہوا بلکہ تمہاری محبتوں کو یاد کر کے روئیں......میری بہن!تم بھی ایسی ہی ہو کہ تمہاری خوبصورتی،ذھانت،متانت،قابلیت جو کچھ بھی صلاحیتیں تھیں وہ تو میں بھول چکی،بس مجھے تمہاری محبت کا انداز یاد رہ گیا ہے! آج مھے بڑی کہانیاں یاد آرہی ہیں....تمھارے ساتھ بیٹے لمحے جو کاش کچھ ٹھر جاتے!!مگر بے رحم وقت نے گزرنا ہے سو گزرتا ہے،کسی کے درد کو دیکھے بنا....ہونہہ....بے حس کہیں کا.....!میری بہن!میں خان سے شروع کروں اور کہاں اختتام کروں......؟؟میں اگر ماضی میں نظر دوڑاؤں تو مجھے وہ لمحے اچھے سے یاد ہیں جب میں ننھی سی تھی.....تم بھی ننھی سی تھیں.....مگر تھی تو بڑی بہن!!تو میں ننھی سی تھی،بخار میں مبتلا تھی تو میری بہن سرے کام چھوڑ کر مجھے لے کر بیٹھی تھی اور میرا دل بہلاتے ہوئے تم مرے لئے بھالو بنا رہی تھی....اس بات کو بھی گو کہ سات سال گزر گئے مگر وہ وقت بھی مجھے یاد ہے جب رات کے دو بجے میں بخار میں تڑپتی جاگی تھی...اماں سو رہی تھیں.....میں بخار میں جل رہی تھی اور میری بڑی بہن ساری رات مرے سات جاگتی رہی تھی فجر تک....پھر میں تو سوگئی تھی اور وہ کاموں میں لگ گئی تھی......مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ تو بھول گئی ہوگی،مرے یاد کرانے پر بھی اسے یاد نہ آئے مگر مجھے سب کل کی طرح یاد ہے،کیونکہ محبتیں اور نفرتیں نہیں بھولتیں!!!مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب دن میں زلزلہ آیا تھا،اس رات میں جاگ کر بار بار بہن کو جگاتی رہی تھی ،ڈر و خوف مجھ پر حاوی تھا تو اس نے مجھے اپنے ساتھ لٹا لیا تھا.....وہ وقت بھی مجھے یاد ہے جب میں بڑی ہوگئی اور بستر پر لٹانا مناسب نہ ہوا تو جب بھی میں جاگ جاگ کر اس کی نیند خراب کرتی وہ نیند کی حالت میں بھی ہر بار مجھے تسلی دیتی،سمجھاتی اورر چڑتی نہیں....پھر وہ وقت بھی یاد ہے جھ مجھے بخار ہوتا تو سونے سے پہلے وہ کہتی کہ اگر رات کو بخار ہو تو جانی مجھے جگادینا!میں اسے جگاتی،وہ نہ غصہ ہوتی،نہ ڈانٹتی،بلکہ میری راہنمائی کرتی،مجھے دوا کا بتائی اور طبیعت پوچھتی رہتی.....ہر انسان پر کچھ نہ کچھ مشکل یا آزمائش ہوتی ہی ہے...کبھی گھر میں کبھی ملک میں....تو مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب کچھ آزمائش کا وقت تھا،میں چھوٹی ہونے کی بنا پر ڈری سہمی رہتی،مجھے مستقبل کا ڈر لگتا تو وہ کتنے اچھے سے سمجھاتی،کبھی خفا ہو کر بھی اور اس کے اس انداز سے ساری پریشانی پر لگا کر اڑ جاتی،وہ مجھے اللہ کی نعمتیں گنواتی،تو دل میں اللہ کا شکر،صبر،رضاء بلقظا اور رب پر بھروسے جیسی کیفیات پیدا ہوجاتیں......اسی محبت کے سائے میں رہتے رہتے پھر وہ دن بھی آگیا!! میری بہن!مجھے وہ وقت بخوبی یاد ہے جب تم بھی چھوٹی تھیں،میں بھی نکی، اماں بچپن میں چھیرنے کے لئے کہتی تھیں کہ بیٹا!بہنا سے محبت سے رہا کرو،ایک دن یہ اپنے گھر کو چلی جائے گی،کچی عمر تھی تو میں رونے لگ جاتی تھی.....پھر تھوڑی بڑی ہوئی تو اس بات کو ازارہ مذاق اڑا دیتی تھی.....تمہیں بخوبی یاد ہوگا ہی....دراصل مجھے لگتا تھا ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں....وہ جو جدائی کا زخم لگا تھا،اس کو محسوس کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی.....پھر اور بڑی ہوئی....سمجھ بوجھ آگئی.....میں نے اب بھی نہ سوچا تھا کہ تم یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤ گے......اپنی یادیں نقش کر کے....اپنے اخلاق سے دل میں گھڑ کر کے.....پھر وہ وقت بھی آگے جب تمہارے رشتے آنا شروع ہوگئے تھے......مجھے اب بھی یقین نہ ہوا کہ تم چلی جاؤ گی......بلکہ میں تمہیں تنگ کرنے کے لیے کہتی تھی کہ جایئں جایئں،اچھا ہے میری جان چھٹے......اففف!یہ الفاظ کیسے میں ادا کردیتی تھی....؟؟پھر تمہاری منگنی ہوگئی تھی.....تب بھی مرے لئے انجوائے منٹ رہی.....ایک خوشی تھی کہ تم چلی جاؤ گی.....تمہارا بستر مجھے مل جائے گا.....ایک خوشی یہ تھی کہ تمہاری شادی ہو تو شاپنگ ہو....موج مستی ہو....یہ تو سوچا ہی نہیں کہ شادی میں ایک چیز رخصتی بھی ہوتی ہے!!....خیر؛میں تمہیں چھیرتی بھی تھی اور تم شرم سے لال پیلی ہو جاتی تھی مگر غصہ نہیں کرتی تھی....نظر انداز کردیا کرتی تھی.....یا مسکرادیا کرتی تھی......ان دنوں جب تمہاری شادی کی باتیں تیاریاں چل رہی تھیں تو اگر کبھی ہم میں نوک جھونک ہوتی تو میں تم سے بدتمیزی رکتی کہ جایئں اپنے گھر،سکوں ہوگا.....مگر یہ الفاظ کتنے بھاری تھے....اس کا اندازہ مجھے تئیس فروری کو ہوا!!بہنا!پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم تمھاری شادی کا جوڑاخریدنے گئے تھے.....تب بھی مجھے احساس نہ ہوا کہ تم جدا ہونے والی ہو......مجھے سب خواب لگ رہا تھا اور وہی ہنسی مذاق....ہاں ذرہ برابر مجھے ایک ہلکا سا احساس اس وقت ہوا تھا جب تمہارا سامان ٹرک میں بھر کر جارہا تھا تو میرا دل سے صد ا آئی کہ کل پرسوں میری بہن بھی یوں جانے والی ہے......میری بہن!!پھر وہ دن بھی آگیا!ہاں وہ دن!تئیس فروری!جو خوشیوں والا بھی تھا اور دل چیڑنے والا بھی کہ تم اپنی یادیں اس گھر میں،در و دیوار میں،دلوں میں ثبت کر کے جارہی تھیں......!سب اداس تھے.....گھر کے در و دیوار بھی......ہمارے دل بھی......پھر وہ وقت بھی مجھے یاد ہے جب تم مرے سامنے کرسی پر سر ٹکائے بیٹھی تھی اور بیوٹشن تمہیں دلہن بنا رہی تھی......ہاں!پھر جو دلہن ہمارے کمرے میں کھڑی ہوئی تھی وہ تم تھیں!مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ تم ہو!میں نے نظر بھر کر تمہیں دیکھا.....پھر جب تمہیں نقاب اوڑھا دیا گیا اور سب رشتہ دار تم سے ملنے لگے تو......ہاں!میں جیسے خواب سے جاگ گئی......جسے خواب یکدم ٹوٹ سا گیا....ایک غفلت جیسے غائب ہوگئی اور اب حقیقت مجھے کھلی آنکھوں سے نظر آرہی تھی.....مجھے ایک جھٹکا سا لگا تھا....میں دھک سے رہ گئی تھی.....مرے سارے جسم میں سنسنی سی دور گئی تھی.....مرے ذہن نے باور کرایا کہ یہ تمہاری بہنا تو اب جارہی ہے!.....کسی بازار مدرسے نہیں....بلکہ یہ گھر چھوڑ کر اگلے گھر!.......میرا دل کسی نے جسے مٹھی میں بھینچ لیا تھا.....سب رشتہ دار تم سے مل رہے تھے.....تبھی اماں کی آواز سنائی دی وہ رشتہ داروں سے کہہ رہی تھیں"اس سے مل لیں،یہ جارہی ہے...."سب تمہارے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے تھے اور ایک ایک لفظ دل پر خنجر کی مانند لگ رہا تھا......مرے قدموں سے گویا جان سی نکل گئی تھی....میں ایک طرف چھپ کر بیٹھ گئی کہ مجھے تو ملنا ہی نہ پڑے......میری آنکھوں کی ٹھنڈک،میرے دل کا سکوں،مرے دل کا آرام،وہ محبتوں کی موتیاں بانٹنے والی،وہ دوسروں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے والی،وہ غلطیوں کو ہنس کر معاف کرنے والی!!........آج ایک تلخ حقیقت مجھ پر کھل گئی تھی کہ میری بہن اب جارہی ہے....اب اس کمرے،بستر پر نظر نہیں آئے گی....اب کہنے پر نظر نہیں آئے گی....سونا سونا ویران گھر.....ایک حسرت تھی کہ آہ کاش!وقت پیچھے لوٹ جائے جب وہ مرے ساتھ موجود تھی .....اب خوب قدر کروں گی.....اب مرے ضبط کا بندھن ٹوٹ رہا تھا.....تبھی مجہے اماں کی آواز سنائی دی،وہ مجھ سے مخاطب تھیں"بہن سے تو مل لو بیٹا"اور میں لرکھراتے قدموں سے آئی اور محظ تم سے نظرے چراتے ہوئے ہاتھ ملائے اور فورا سے پیچھے ہوگئی.....کن انکھیوں سے بس اس فرشتے کو جاتا دیکھ رہی تھی....آہ وہ کیسا منظر تھا.......پھر دروازہ بند ہوگیا....سب تمہیں آخر تک الوداع کرتے رہے مگر میں اندر دبکی رہی.... "چھوڑنے نہیں گئی جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتی ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے پھر گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی.....تم چلی گئی تھیں!......اب میں تھی اور تمہاری یادیں تھیں جو نجانے کب تک ساتھ ساتھ رہنی تھیں......" مرے آنگن میں ٹھہریں گی تری یادیں تری باتیں
چلی جائے گی تیرے ساتھ ہی رونق مرے گھر کی
یہ میرے ساتھ چھپ چھپ کر ہزاروں بار روئیں گے
تری رخصت پہ اے بہنا در و دیوار روئیں گے تجھ کو رخصت تو کیا تھا پر مجھے معلوم نہ تھا "
سارا گھر لے جائے گی تو اے گھر چھوڑ کے جانے والی" "لو مبارک ہو تمہیں وقتِ سفر اب الوداع
باندھ کر اشکوں کے سب لعل و گہر اب الوداع
جاؤ بابل کے نگر سے اپنے گھر اب الوداع
اے مری بہنا مری جان اب الوداع" میں دل ہی دل میں تمہیں الوداع کہہ رہی تھی-میرا دل کر رہا تھا کہ تمھارے گلے لگ کر خوب روتی مگر اب تم جاچکی تھی....اپنی یادوں کو دل میں نقش کر کے......رات تھی.....اور تمہاری یادوں کا سلسلہ تھا.....میری بہنا!جو میں ضبط کرتی رہی تھی رات کو وہ سارے بدھن ٹوٹ چکے تھے......پھر پتا ہے کیا ہوا!ہاں میں بہت روئی.....مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھ سے بہت عزیز و قیمتی چیز چھین لی ہو......میں بہت دن تک گم رہی.....ہاں تمہاری یادوں اور خیالوں میں......اس رات کا تو سنو.....مجھے ہمت نہ پڑی کہ تمھارے بستر پر لیٹوں جس کی عرصے سے خواہش تھی...کیونکہ اس وقت مجھے تمھارے ملائم بستر پر لیٹنا انگاروں پر لٹینے کے مترادف لگ رہا تھا......پھر تمہاری یادیں تھیں.....وہ لمحات جن کی مجھے کبھی قیمت کا احساس نہیں ہوا تھا.....آج وہ لمحات سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی لگ رہے تھے.....وہ لمحات جب شادی سے محض دو دن قبل تم ریسٹورنٹ میں محض چند انچ کے فاصلے پر مرے سامنے بیٹھی تھی.....تم تمہیں دیکھتے ہوئے میں یہ تو سوچ رہی تھی کہ تم جانے والی ہو پرسوں مگر مجھے اس دکھ کی گہرائی کا احساس نہ ہوا تھا......میرا دل کر رہا تھا کہ کاش!وقت صرف دو دن پیچھے چلا جائے.....ہاں!صرف دو دن......اور مجھے تمھارے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوجائے........جب تمہارے ولیمے سے واپسی پر تم اپنی گاڑی اور ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے تو مجھے ایک لہر سی اٹھی تھی دل میں....ہاں!میں کیا بتاؤں کہ وہ کیا چیز تھی؟؟خوشی تو تھی کہ تم ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہی ہو مگر وہ شاید ایک درد کی لہر تھی......خیر جو سمجھو تم......میں کیا سمجھاؤں....الفاظ ہی تنگ پر رہے ہیں......کتنے ہی دن میں اداس رہی.....چپ چپ رہی.....تمہاری یادوں میں کھوئی رہی......کتنے ہی دن کمرے میں جھانکتی تو ایک لمحے کو مجھے تمہاری شبیہ سی نظر آتی....دھندلائی دھندلائی.......جائے نماز پر....بستر پر.....مگر میں فورا آنکھیں مل کر ہوش کی دنیا میں آکر خود کو باور کراتی کہ وہ ادھر نہیں ہے....ہر جگہ مجھے تمہاری کمی محسوس ہوتی رہی......کتنے ہی دن جب کھانے کی کوئی چیز آتی،چپس چاکلیٹ تو ایک پرانی عادت کے تحت میں خطا سے تین حصے کرلیتی مگر جب یاد آتا کہ تم تو اب ادھر نہیں....تو ایک آہ بھر کر تمہارا حصّہ بھی تمہاری یاد سمجھ کر اپنے اندر کرلیتی.....پیاری بہن!اب تم شادی کے بعد ملنے تو آؤ گی....اللہ تمہیں سلامت رکھے.....مگر اب بات وہ نہیں ہوگی.....اب تو محبت سے رہنا ہوگا.....لڑائی جھگڑے اور تمہیں ستانے کا تو اب سوال پیدا نہیں ہوتا......اصل وقت تو وہ تھا جب تم ساتھ تھی تو محبت سے رہ کر تمہارا حق ادا کرنا تھا......مگر افسوس!اس وقت میں تمہاری محبت کا جواب نہیں دے سکی..... پیاری بہن!تمہارا ظرف بہت بڑا ہے....تمھارے اخلاق بہت بڑے ہیں....تمہارا دل بہت بڑا ہے.....کتنے ہی دن کوشش کرتی رہی کہ تمھارے شکریے کا مضمون لکھوں مگر مجھے ہمت نہ پڑی.....تمھاری محبت کو سلام....تمھاری شفقتوں کو سلام.....تمہارے حسن خلق کو سلام.......تم نے حقیقی معنوں میں ایک محبت کرنے والی بہن بن کر دکھایا-.....میری بہن!یہ مضمون میں نے دل کے خوں کی روشنائی سے لکھا ہے جس کو پڑھ کر شاید تم بھی رو پڑو......میری بہن!محبت چیز ہی ایسی ہے.....لاکھ کوشش کے باوجود میری ہمت نہ پڑی تھی کہ تمہارے بابت کوئی بات کرسکتی یا سن سکتی......میری بہن!تمھاری رخصتی والی رات تو تمہاری جدائی نے بہت رلایا......تمہارا چڑیا کی طرح چہچہانا ،اس گھر میں پھرنا،تمہاری ہر ادا،تمہارا مسکرانا....سب مجھے بہت یاد آرہا تھا......میری بہن!مگر میں کیا کروں....میں مجبور ہوں....شادی تو شریعت کا حکم ہے.....معاشرت کا نظام ہے ورنہ میں کبھی بھی تم سے جدہ ہونے کو نہ سوچتی.....میری بہن!اس گھر کی رونق چلی گئی ہے....در و دیوار سونے ہوگئے ہیں......جب سے تم اس گھر سے گئی ہو.....میرا دل روٹھ گیا ہے......میری آنکھیں سرخ ہوگئی ہیں.....میں خیالات میں تمہارے گلے لگتی ہوں،تمہارے سے باتیں کرتی ہوں.......اس گھر کی ہر چیز اجنبی ہوگئی ہے......میری بہن!تمھارے جانے سے ہر فرد کا چہرہ مرجھا گیا ہے.....تم تم تھی.....تمہارا انداز تمہارا انداز تھا.....تمہارا لہجہ تمہارا لہجہ تھا...میری بہن!کاش مجھے الفاظ کا دامن تنگ نہ پڑتا اور دل کھول کر میں تجھ سے اپنے احساسات کا اظہار کرسکتی....میری بہن مجھے معاف کردے....میں تیری محبت کا حق ادا نہ کرسکی....تیرے دامن میں سمٹ کر میں جو تجھ سے سیکھا ہے وہ میں کبھی نہیں بھلاؤں گی....میری بہن!تیری یاد اب بھی مرے ساتھ ہے.....اب بھی مجھے تیری رخصتی کی وہ شام یاد ہے....... وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے" میری بہن!اب تو تمہیں رخصت ہوئے تین ماہ ہونے کو ہیں....ہر غم وقت کے ساتھ ساتھ دور ہو ہی جاتا ہے......اب ظاہر سی بات ہے....مصروفیات ہیں......پڑھائیاں ہیں.....اب تم اپنے گھر کی ہوگئی تو سیٹ تو ہونا ہی ہے.....چاروناچار ہی سہی.....کل کو ہمارا بھی اپن گھر ہوگا......مصروفیات ہوں گی.....اب بھی ہیں.....مگر میری بہنا!مجھے لگتا ہے کہ یہ یادیں کبھی مٹیں گی نہیں.....دھندلی تو ضرور ہوجائیں گی کیونکہ بے رحم وقت گہرے گہرے نقوش بھی مٹا دیتا ہے مگر تمہاری یادیں میرے ذہن و دل سے کبھی مٹ نہیں سکیں گی........ہوسکتا ہے تو اپنے گھر میں مصروف ہو کر مجھے بھول گئی ہو مگر میری بہن!میں تمہیں نہیں بھولی گو کہ تم یہ سوچتی بھی ہو......میرا دل اب بھی تمہیں پکار پکار کر صدائیں دیتا ہے.....میری بہن!اب بی کوئی ایسی بات ہو تو تمہیں یاد کر کے اب بھی میں تمہاری یاد کے تکیے پر روتی ہوں.....میں تمہارے بے لوث احسان کا شکریہ ادا نہیں کرسکی.....ان ٹوٹی پھوٹی سطروں کے توسط سے کرنا چاہتی ہوں....امید ہے تم دیکھ لو گی....میری بہن!میری ہر غلطی کو معاف کردینا......میری بہن!رب پاک تمہیں خوشیاں دیں....تمہیں اپنے گھر کی ملکہ بناۓ......اللہ پاک تمہیں نیک بیوی اور نیک ماں بناۓ.....ایک جملہ جو ماخوز کہ تجھے اپنی خوشی مبارک...ہمیں ہمارا غم مبارک.....ہم تو رورو کر اپن غم ہلکا کرتے رہیں گے.....دعا ہے کہ تو سدا ہنستی کھلتی رہے......میری بہن!اچھا کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر اب اماں مجھے آواز دے رہی ہیں....اور میں تمھاری یادوں کو ذہن کے بکسے میں بند کر رہی ہوں.....پھر کسی وقت کھولنے کے لئے!!....... بقلمتمہاری غمخوار چھوٹی بہن .....جسے تم جانی کہہ کر پکارتی تھی!!)
لوٹ آتی ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے پھر گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی.....تم چلی گئی تھیں!......اب میں تھی اور تمہاری یادیں تھیں جو نجانے کب تک ساتھ ساتھ رہنی تھیں......" مرے آنگن میں ٹھہریں گی تری یادیں تری باتیں
چلی جائے گی تیرے ساتھ ہی رونق مرے گھر کی
یہ میرے ساتھ چھپ چھپ کر ہزاروں بار روئیں گے
تری رخصت پہ اے بہنا در و دیوار روئیں گے تجھ کو رخصت تو کیا تھا پر مجھے معلوم نہ تھا "
سارا گھر لے جائے گی تو اے گھر چھوڑ کے جانے والی" "لو مبارک ہو تمہیں وقتِ سفر اب الوداع
باندھ کر اشکوں کے سب لعل و گہر اب الوداع
جاؤ بابل کے نگر سے اپنے گھر اب الوداع
اے مری بہنا مری جان اب الوداع" میں دل ہی دل میں تمہیں الوداع کہہ رہی تھی-میرا دل کر رہا تھا کہ تمھارے گلے لگ کر خوب روتی مگر اب تم جاچکی تھی....اپنی یادوں کو دل میں نقش کر کے......رات تھی.....اور تمہاری یادوں کا سلسلہ تھا.....میری بہنا!جو میں ضبط کرتی رہی تھی رات کو وہ سارے بدھن ٹوٹ چکے تھے......پھر پتا ہے کیا ہوا!ہاں میں بہت روئی.....مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھ سے بہت عزیز و قیمتی چیز چھین لی ہو......میں بہت دن تک گم رہی.....ہاں تمہاری یادوں اور خیالوں میں......اس رات کا تو سنو.....مجھے ہمت نہ پڑی کہ تمھارے بستر پر لیٹوں جس کی عرصے سے خواہش تھی...کیونکہ اس وقت مجھے تمھارے ملائم بستر پر لیٹنا انگاروں پر لٹینے کے مترادف لگ رہا تھا......پھر تمہاری یادیں تھیں.....وہ لمحات جن کی مجھے کبھی قیمت کا احساس نہیں ہوا تھا.....آج وہ لمحات سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی لگ رہے تھے.....وہ لمحات جب شادی سے محض دو دن قبل تم ریسٹورنٹ میں محض چند انچ کے فاصلے پر مرے سامنے بیٹھی تھی.....تم تمہیں دیکھتے ہوئے میں یہ تو سوچ رہی تھی کہ تم جانے والی ہو پرسوں مگر مجھے اس دکھ کی گہرائی کا احساس نہ ہوا تھا......میرا دل کر رہا تھا کہ کاش!وقت صرف دو دن پیچھے چلا جائے.....ہاں!صرف دو دن......اور مجھے تمھارے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوجائے........جب تمہارے ولیمے سے واپسی پر تم اپنی گاڑی اور ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے تو مجھے ایک لہر سی اٹھی تھی دل میں....ہاں!میں کیا بتاؤں کہ وہ کیا چیز تھی؟؟خوشی تو تھی کہ تم ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہی ہو مگر وہ شاید ایک درد کی لہر تھی......خیر جو سمجھو تم......میں کیا سمجھاؤں....الفاظ ہی تنگ پر رہے ہیں......کتنے ہی دن میں اداس رہی.....چپ چپ رہی.....تمہاری یادوں میں کھوئی رہی......کتنے ہی دن کمرے میں جھانکتی تو ایک لمحے کو مجھے تمہاری شبیہ سی نظر آتی....دھندلائی دھندلائی.......جائے نماز پر....بستر پر.....مگر میں فورا آنکھیں مل کر ہوش کی دنیا میں آکر خود کو باور کراتی کہ وہ ادھر نہیں ہے....ہر جگہ مجھے تمہاری کمی محسوس ہوتی رہی......کتنے ہی دن جب کھانے کی کوئی چیز آتی،چپس چاکلیٹ تو ایک پرانی عادت کے تحت میں خطا سے تین حصے کرلیتی مگر جب یاد آتا کہ تم تو اب ادھر نہیں....تو ایک آہ بھر کر تمہارا حصّہ بھی تمہاری یاد سمجھ کر اپنے اندر کرلیتی.....پیاری بہن!اب تم شادی کے بعد ملنے تو آؤ گی....اللہ تمہیں سلامت رکھے.....مگر اب بات وہ نہیں ہوگی.....اب تو محبت سے رہنا ہوگا.....لڑائی جھگڑے اور تمہیں ستانے کا تو اب سوال پیدا نہیں ہوتا......اصل وقت تو وہ تھا جب تم ساتھ تھی تو محبت سے رہ کر تمہارا حق ادا کرنا تھا......مگر افسوس!اس وقت میں تمہاری محبت کا جواب نہیں دے سکی..... پیاری بہن!تمہارا ظرف بہت بڑا ہے....تمھارے اخلاق بہت بڑے ہیں....تمہارا دل بہت بڑا ہے.....کتنے ہی دن کوشش کرتی رہی کہ تمھارے شکریے کا مضمون لکھوں مگر مجھے ہمت نہ پڑی.....تمھاری محبت کو سلام....تمھاری شفقتوں کو سلام.....تمہارے حسن خلق کو سلام.......تم نے حقیقی معنوں میں ایک محبت کرنے والی بہن بن کر دکھایا-.....میری بہن!یہ مضمون میں نے دل کے خوں کی روشنائی سے لکھا ہے جس کو پڑھ کر شاید تم بھی رو پڑو......میری بہن!محبت چیز ہی ایسی ہے.....لاکھ کوشش کے باوجود میری ہمت نہ پڑی تھی کہ تمہارے بابت کوئی بات کرسکتی یا سن سکتی......میری بہن!تمھاری رخصتی والی رات تو تمہاری جدائی نے بہت رلایا......تمہارا چڑیا کی طرح چہچہانا ،اس گھر میں پھرنا،تمہاری ہر ادا،تمہارا مسکرانا....سب مجھے بہت یاد آرہا تھا......میری بہن!مگر میں کیا کروں....میں مجبور ہوں....شادی تو شریعت کا حکم ہے.....معاشرت کا نظام ہے ورنہ میں کبھی بھی تم سے جدہ ہونے کو نہ سوچتی.....میری بہن!اس گھر کی رونق چلی گئی ہے....در و دیوار سونے ہوگئے ہیں......جب سے تم اس گھر سے گئی ہو.....میرا دل روٹھ گیا ہے......میری آنکھیں سرخ ہوگئی ہیں.....میں خیالات میں تمہارے گلے لگتی ہوں،تمہارے سے باتیں کرتی ہوں.......اس گھر کی ہر چیز اجنبی ہوگئی ہے......میری بہن!تمھارے جانے سے ہر فرد کا چہرہ مرجھا گیا ہے.....تم تم تھی.....تمہارا انداز تمہارا انداز تھا.....تمہارا لہجہ تمہارا لہجہ تھا...میری بہن!کاش مجھے الفاظ کا دامن تنگ نہ پڑتا اور دل کھول کر میں تجھ سے اپنے احساسات کا اظہار کرسکتی....میری بہن مجھے معاف کردے....میں تیری محبت کا حق ادا نہ کرسکی....تیرے دامن میں سمٹ کر میں جو تجھ سے سیکھا ہے وہ میں کبھی نہیں بھلاؤں گی....میری بہن!تیری یاد اب بھی مرے ساتھ ہے.....اب بھی مجھے تیری رخصتی کی وہ شام یاد ہے....... وہ الوداع کا منظر وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے" میری بہن!اب تو تمہیں رخصت ہوئے تین ماہ ہونے کو ہیں....ہر غم وقت کے ساتھ ساتھ دور ہو ہی جاتا ہے......اب ظاہر سی بات ہے....مصروفیات ہیں......پڑھائیاں ہیں.....اب تم اپنے گھر کی ہوگئی تو سیٹ تو ہونا ہی ہے.....چاروناچار ہی سہی.....کل کو ہمارا بھی اپن گھر ہوگا......مصروفیات ہوں گی.....اب بھی ہیں.....مگر میری بہنا!مجھے لگتا ہے کہ یہ یادیں کبھی مٹیں گی نہیں.....دھندلی تو ضرور ہوجائیں گی کیونکہ بے رحم وقت گہرے گہرے نقوش بھی مٹا دیتا ہے مگر تمہاری یادیں میرے ذہن و دل سے کبھی مٹ نہیں سکیں گی........ہوسکتا ہے تو اپنے گھر میں مصروف ہو کر مجھے بھول گئی ہو مگر میری بہن!میں تمہیں نہیں بھولی گو کہ تم یہ سوچتی بھی ہو......میرا دل اب بھی تمہیں پکار پکار کر صدائیں دیتا ہے.....میری بہن!اب بی کوئی ایسی بات ہو تو تمہیں یاد کر کے اب بھی میں تمہاری یاد کے تکیے پر روتی ہوں.....میں تمہارے بے لوث احسان کا شکریہ ادا نہیں کرسکی.....ان ٹوٹی پھوٹی سطروں کے توسط سے کرنا چاہتی ہوں....امید ہے تم دیکھ لو گی....میری بہن!میری ہر غلطی کو معاف کردینا......میری بہن!رب پاک تمہیں خوشیاں دیں....تمہیں اپنے گھر کی ملکہ بناۓ......اللہ پاک تمہیں نیک بیوی اور نیک ماں بناۓ.....ایک جملہ جو ماخوز کہ تجھے اپنی خوشی مبارک...ہمیں ہمارا غم مبارک.....ہم تو رورو کر اپن غم ہلکا کرتے رہیں گے.....دعا ہے کہ تو سدا ہنستی کھلتی رہے......میری بہن!اچھا کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر اب اماں مجھے آواز دے رہی ہیں....اور میں تمھاری یادوں کو ذہن کے بکسے میں بند کر رہی ہوں.....پھر کسی وقت کھولنے کے لئے!!....... بقلمتمہاری غمخوار چھوٹی بہن .....جسے تم جانی کہہ کر پکارتی تھی!!)