ابو محمد
رجسٹرڈ ممبر
"فکسڈ میچ"
:::::::::::::
:::::::::::::
اسرائیل نے 2 اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر میزائل حملہ کیا تھا۔ ایران کے لئے یہ یوں ایک مشکل صورتحال تھی کہ اس طرح کے حملے کا جواب لازم ہوتا ہے تاکہ ریڈ لائن بحال رہے۔ مگر اس حملے کا تو مقصد ہی ایران کو جنگ میں گھسیٹنے کے لئے تھا۔ ایران اگر اس ٹریپ میں آتا تو اس پر حملے کا جواز پیدا ہوجاتا اور جواب نہ دیتا تو اس کی مٹی پلید ہونی تھی۔
اب سمجھنے والا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی ملک اس طرح کی صورتحال میں جوابی حملہ کرتا ہے تو اس میں زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے لگتے ہیں۔ مثلا پاکستان نے فروری 2019ء میں انڈیا کو 24 گھنٹے میں ہی جوابی حملے کا نشانہ بنایا تھا جبکہ حال ہی میں ایرانی حملے کا جواب 48 گھنٹے کے اندر دیا تھا۔ اس قسم کی صورتحال میں جب جوابی حملہ ہوئےبغیر تیسرا دن داخل ہوجائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی بڑا ملک بیچ میں کود چکا ہے اور تصفیے کی کوشش کر رہا ہے۔
بالعموم تصفیے کی اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ ملک سے کہا جاتا ہے کہ اچھا یوں کرتے ہیں کہ حملہ آور ملک کے فلاں ٹارگٹ کو نشانہ بنا لو مگر میزائل ہلکا استعمال کرنا۔ یوں نہ صرف معمولی سا ملٹری ٹارگٹ طے کرلیا جاتا ہے اور وہاں سے اہم چیزیں اور افراد ہٹا دیئے جاتے ہیں بلکہ اس جوابی حملے کا باقاعدہ دن اور وقت بھی باہمی طور پر طے کرلیا جاتا ہے۔
امریکہ میں یہ صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ جو بائیڈن کی ناک پہلے ہی یوکرین میں کٹنے کے بالکل قریب ہے۔ ایسے میں اسرائیل اسے ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنے کی جو کوشش کر رہا ہے وہ بائیڈن کے لئے خطرناک ہے۔ سو ہمارا اندازہ ہے کہ امریکہ نے پس پردہ بیچ کی راہ نکالتے ہوئے اسرائیل پر آج والے ایرانی حملے کا "اہتمام" کروایا ہے۔ ہمارے ایسا سوچنے کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ وہی کہ جوابی حملے میں ایران کو 48 گھنٹے سے زیادہ نہیں لگنے چاہئے تھے۔ اس نے جوابا ایک میزائل ہی داغنا تھا۔ اس کے لئے لمبی چوڑی سوچ کی ضرورت نہ تھی۔ اس طرح کے ملٹری پلان ہر ملک کی قومی سلامتی پالیسی کا پہلے سے ہی حصہ ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ یہ جوبائیڈن ہی تھا جس نے تین قبل اچانک انکشاف کیا کہ ایران بہت جلد جوابی حملہ کرنے والا ہے۔ اور اسرائیلی حکومت نے کل سے سکول کالجز کی دو روز کے لئے تعطیل کردی تھی۔ حملے والی رات سے ایک روز قبل اور ایک روز بعد کے لئے تعطیل کا اعلان صاف بتا رہا ہے کہ تاریخ اور وقت فکس تھا۔ تیسری وجہ یہ کہ ایران نے حملے کے لئے شاہد ڈرون استعمال کئے جس کی رفتار ہی کرولا کار سے بھی تھوڑی کم یعنی 140 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اور انہیں آئرن دوم سسٹم سے بہ آسانی گرایا جاسکتا ہے۔ ایران کے پاس تو اس کے دعوے کے مطابق ہائپرسانک میزائل بھی ہیں جن کا اسرائیل کیا امریکہ کے پاس بھی توڑ نہیں۔ اس نے 200 ڈرونز کی بجائے ایک عدد ہائپرسانک میزائل کیوں استعمال نہ کیا جو سیدھا ٹارگٹ کو ہٹ کرتا ؟ چوتھی وجہ یہ کہ حملے کے فورا بعد ایران نے یہ کیوں کہا
"معاملہ ختم سمجھا جائے"
ایران کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اسے تو اکڑنا چاہئے تھا کہ اکھاڑ لو جو اکھاڑ سکتے ہو۔ پانچویں اور سب سے اہم وجہ یہ کہ ایران روس اور چین دونوں کی ریڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔ سو بیجنگ اور ماسکو میں ٹینشن کے آثار کیوں نظر نہ آئے ؟ وزرائے خارجہ کی دوڑیں لگنی چاہئیں تھیں کہ ایران کے جوابی حملے سے تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کا پرسکون رہنا میچ فکسنگ کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ لیکن ہمارا یہ تمام تجزیہ غلط بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور غلط ثابت ہونے کی ایک ہی صورت ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کردے۔ چلئے دیکھتے ہیں کہ اسرائیل ایسا کرتا ہے یا نہیں ؟