بنت عبد الحق اسلام آباد
رجسٹرڈ ممبر
اللہ تعالی کا فرمان ہے: جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔
یعنی میں اس کے ساتھ وہ سلوک کروں گا جودورانِ جنگ دشمن سے کیا جاتا ہے ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو بھی یہ دشمنی کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ہلاکت کا مستحق ہوگا۔اور اہلِ علم کے قول کے مطابق اس میں بہت سخت تنبیہ وڈراواہے ؛ کیونکہ جس سے اللہ جنگ کرے وہ تو ہلاک ہوکر ہی رہے گا۔ اور جب دشمنی کے معاملے میں یہ بات ثابت ہوگئی تو دوستی (ولایت) کے بارے میں بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص اللہ کے ولی سے دوستی کرے گا اللہ اسے بھی عزت دے گا۔
صحابہ کرام کی محبت اور احترام ہر شخص پر واجب ہے
اللہ کے بندو!
اور سب سے عظمت والے لوگ وہ ہیں جن کی محبت اور دوستی رکھنا بھی واجب ہے اور اور ان کی دشمنی سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کی صحبت کے لئے چُنا ہے، اور انہیں (لوگوں تک) دین منتقل کرنے اور قرآنِ مجید کی ذمہ داری نبھانے یہ توفیق عطا فرمائی، اور ان سے راضی ہوگیا اور ان کی تعریفیں کیں اور پاکیزگی بیان کی۔
شانِ صحابہ کے بارے میں قرآنی آیات
اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
التوبة – 100
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
مَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ
الفتح – 29
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
الفتح – 18
یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔
اورفرمانِ الٰہی ہے:
لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
الحدید – 10
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔
عظمتِ صحابہ کے بارے میں آحادیثِ نبویۃ
نبی مکرّم علیہ السلام نےاپنے کسی بھی صحابی کو گالی دینے، بُرا کہنے و سمجھنے سے سخت منع فرمایا ہے،اور یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان اپنا سارا مال خرچ کرکے بھی میرے(رسول اکرمﷺکے)کسی بھی ادنیٰ سے صحابی کے رتبہ اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا، حدیث یہ ہے:
«لا تسبُّوا أصحابي؛ فلو أن أحدَكم أنفقَ مثلَ أُحدٍ ذهبًا ما بلغَ مُدَّ أحدهم ولا نصيفَه» .
أخرجه الشیخان فی “صحیحیھما” ۔
میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ )تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونابھی(صدقہ و خیرات میں ) خرچ کرلے تووہ اُن(صحابہ)میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤاناج کےخرچ کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا (بخاری و مسلم)۔
دوسری حدیث میں ہے:
وفي “الصحيحين” أيضًا من حديث عمران بن حُصين – رضي الله عنه – أن رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «خيرُ الناس قرني، ثم الذين يلُونَهم، ثم الذين يلُونَهم». قال عمران: فلا أدري أذَكَر بعد قرنِه قرنَيْن أم ثلاثة.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ان کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے:
وأخرج الشيخان عن أبي سعيد الخُدري – رضي الله عنه – أنه قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقولون: هل فيكم من صاحبَ رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتحُ لهم. ثم يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقال: هل فيكم من صاحبَ أصحاب رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتَحُ لهم. ثم يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقال: هل فيكم من صاحبَ من صاحبَ أصحاب رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتَحُ لهم».
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی صحابی رسول ﷺ ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو انہیں فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور یہ پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے کسی صحابی کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تواُنہیں بھی فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے صحابی کی صحبت پانے والے کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تبع تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو ان کے ہاتھ پر بھی فتح ہوگی۔
(یعنی جنگ میں صحاباء ، تانعین و اتباعِ تابعین میں سے کسی کی بھی موجودگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کے نزول اور لوگوں کی فتح کا سبب ہوگا، اور تاریخ شاہد ہے ایسا ہی ہوا اسلام کے شروع کے تین سو سال کہ جوصحاباء ، تانعین و اتباعِ تابعین کے زمانے تھے اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا)
اور پیارے نبی علیہ السلام نے یہ بات بھی بیان فرمادی کہ انصار سے محبت کرنا سچے ایمان کی نشانی ہے ، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔اس بارے میں صحیح بخاری و مسلم میں نبی علیہ السلام کا فرمان ہے۔
«آية الإيمان حبُّ الأنصار، وآية النفاق بُغضُ الأنصار» ۔
أخرجه الشیخان فی “صحیحیهما” ۔
انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے ، اور انصار سے بغض رکھنا منافق کی علامت ہے۔
سلف صالحین کاصحابہ کرام کےبارےمیں مؤقف
اور انہی صحیح اور صریح (واضح) نصوص کی بنیاد پرہی اہلِ حق نے سب سے افضل ترین شخصیات صحابہ کرام کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔
اسی ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ونحبُّ أصحابَ رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، ولا نُفرِطُ في حبِّ أحدٍ منهم، ولا نتبرَّأُ من أحدٍ منهم، ونُبغِضُ من يُبغِضُهم وبغير الحقِّ يذكُرهم، ولا نذكُرهم إلا بخيرٍ، وحبُّهم دينٌ وإيمانٌ وإحسانٌ، وبُغضُهم كفرٌ ونفاقٌ وطُغيان”.
اور ہم اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں، اور ان میں سے کسی کی محبت میں بھی غلو نہیں کرتے، اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے براءت کرتے (اور نہ ہی کسی پر تبرّاء کرتے )ہیں، اور ہر اس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان (صحابہ) سے بغض رکھتا ہےاور جوان کی برائی کرتا ہے۔اور ہم ہمیشہ اُن کا ذکرفقط اچھائی ، خیر و بھلائی ہی کے ساتھ کرتے ہیں ،اُن (صحابہ )سے محبت کرنا دین، ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔
صحابہ کرام فخر واعزاز کے مستحق ہیں
اللہ کے بندو!
ان(صحابہ) کی محبت دین، ایمان اور احسان کا مجموعہ ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کی تکمیل ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے اللہ کے دین کی مدد کی، اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جہاد کیااور جان، مال اور خون سب کچھ قربان کردیا۔
اور زمانہ گزرنے کے باوجود بھی امت ان سے بھرپور محبت کرتی ہے، ان کی سیرت کا مستقل اہتمام کرتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی اور جلال کی بہترین صورت، بلندی، شرف ، عالی شان مقام اور عمدہ نمونہ نکھر کر سامنے آسکے۔
صحابہ کے بارے میں ہمیشہ اچھے نظریات رکھنا لازمی ہے
اور جو کچھ ان کے درمیان ہوا اس بارے میں گفتگو سے پرہیز کرنا، اوریہ عقیدہ رکھناکہ وہ سب مجتہد ہیں اور اس میں ان کے لئے اجر ہے، اللہ ان سے راضی ہوجائے اور انہیں بھی راضی کردے، اور اسلام اور اہلِ اسلام کی طرف سے اتنا بہترین بدلہ دے جو وہ اپنے نیک و کار اور متقی بندوں کو دیا کرتا ہے۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے احکامات اور نبی علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور ہم سب سمیت تمام مسلمانوں کے لئے اللہ ذوالجلال والاکرام سے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
بیشک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد اور مغفرت مانگتے ہیں، اور ہم اپنے نفس کی شرارتوں اوربرے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔
یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر اور ان کی آل پر اور ان کے صحابہ پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما۔
صحابہ کی عظمت اور بُلندسیرت و کردارکے بارے میں سلف صالحین کے اقوال
حمدو ثنا کے بعد:
اللہ کے بندو!
جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
“من كان منكم مُستنًّا فليستنَّ بمن قد ماتَ؛ فإن الحيَّ لا تُؤمنُ عليه الفتنة، أولئك أصحابُ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم -، كانوا أفضلَ هذه الأمة، وأبرَّها قلوبًا، وأعمقَها علمًا، وأقلَّها تكلُّفًا، قومٌ اختارَهم الله لصُحبة نبيِّه وإقامَة دينِه، فاعرِفوا لهم فضلَهم، واتَّبِعوهم في آثارهم، وتمسَّكوا بما استطعتُم من أخلاقِهم ودينهم؛ فإنهم كانوا على الهُدى المُستقيم”.
آپ لوگوں میں جو شخص بھی کسی طریقے کو اپنانا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اُن کے طریقے کو اپنائے جو فوت ہوچکا ہے،(یعنی جواُسوقت فوت شدہ صحابہ تھے ) کیونکہ زندہ انسان کی فتنے سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں، اور وہ لوگ محمدﷺکے صحابہ ہی ہیں ( جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور انہی کی پیروی میں بھلائی ہے)۔جواس امت کے افضل ترین لوگ تھے، انتہائی نیک دل، راسخ علم والے، کم سے کم تکلف کرنے والے، وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور اقامتِ دین کے لئے منتخب فرمایا، تو تم سب ان کی فضیلت کو پہچانو، اُن کے نقش قدم پر چلو،اور جتنا ممکن ہو ان کے اخلاق اور دین کو اپناؤ؛ کیونکہ وہ سیدھے راستے پر تھے۔
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک یہ بھی قول ہے:
“إن اللهَ تعالى نظرَ في قلوبِ العباد، فوجدَ قلبَ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم – خيرَ قلوبِ العباد، فاصطفاهُ لنفسِه، وابتعثَه برسالتِه، ثم نظرَ في قلوبِ العباد بعد قلب محمدٍ – صلى الله عليه وسلم -، فوجدَ قلوبَ أصحابِه خيرَ قلوب العباد، فجعلَهم وُزراءَ نبيِّه، يُقاتِلون على دينِه”.
یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزرا ءبنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔
اللہ کے بندو!
اللہ سے ڈریں اور صحابہ کرام کا حق، فضیلت و مرتبہ پہچان لیں، نبی علیہ السلام کے ساتھ ان کا کوئی بھی ایک لمحہ گزارنا بھی انتہائی فضیلت کا باعث ہے، جیسا کہ امامِ مفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا ہے:
“لمُقامُ أحدهم ساعة مع النبي صلى الله عليه وسلم خيرٌ من عمل أحدِكم أربعين سنة”.وفي رواية:”خيرٌ من عبادةِ أحدِكم عُمُره”.
کسی بھی صحابی کا نبی علیہ السلام کے ساتھ ایک لمحہ گزارنااتم میں سے کسی شخص کے چالیس دن کے عمل سے بہتر ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔
درود و سلام
ہمیشہ یاد رکھیں!
سب لوگوں کو اللہ تعالی نے خیرِ خلق پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الأحزاب – 56
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔
یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما، اور چاروں خلفاء ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے راضی ہوجا۔اور آل و اصحاب اور تابعین سے بھی راضی ہوجا، اور ان سے بھی راضی ہوجا جوقیامت تک ان کی پیروی کریں گے، اور اے سب سے زیادہ عفو و درگزر کرنے والے! ان کے ساتھ ساتھ اپنی مہربانی، کرم اور بھلائی کے ذریعہ ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یعنی میں اس کے ساتھ وہ سلوک کروں گا جودورانِ جنگ دشمن سے کیا جاتا ہے ۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو بھی یہ دشمنی کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ہلاکت کا مستحق ہوگا۔اور اہلِ علم کے قول کے مطابق اس میں بہت سخت تنبیہ وڈراواہے ؛ کیونکہ جس سے اللہ جنگ کرے وہ تو ہلاک ہوکر ہی رہے گا۔ اور جب دشمنی کے معاملے میں یہ بات ثابت ہوگئی تو دوستی (ولایت) کے بارے میں بھی یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو شخص اللہ کے ولی سے دوستی کرے گا اللہ اسے بھی عزت دے گا۔
صحابہ کرام کی محبت اور احترام ہر شخص پر واجب ہے
اللہ کے بندو!
اور سب سے عظمت والے لوگ وہ ہیں جن کی محبت اور دوستی رکھنا بھی واجب ہے اور اور ان کی دشمنی سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے وہ اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کی صحبت کے لئے چُنا ہے، اور انہیں (لوگوں تک) دین منتقل کرنے اور قرآنِ مجید کی ذمہ داری نبھانے یہ توفیق عطا فرمائی، اور ان سے راضی ہوگیا اور ان کی تعریفیں کیں اور پاکیزگی بیان کی۔
شانِ صحابہ کے بارے میں قرآنی آیات
اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
التوبة – 100
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
مَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ
الفتح – 29
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
الفتح – 18
یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔
اورفرمانِ الٰہی ہے:
لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
الحدید – 10
تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے، ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے۔
عظمتِ صحابہ کے بارے میں آحادیثِ نبویۃ
نبی مکرّم علیہ السلام نےاپنے کسی بھی صحابی کو گالی دینے، بُرا کہنے و سمجھنے سے سخت منع فرمایا ہے،اور یہ بھی فرمایا کہ کوئی بھی مسلمان اپنا سارا مال خرچ کرکے بھی میرے(رسول اکرمﷺکے)کسی بھی ادنیٰ سے صحابی کے رتبہ اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا، حدیث یہ ہے:
«لا تسبُّوا أصحابي؛ فلو أن أحدَكم أنفقَ مثلَ أُحدٍ ذهبًا ما بلغَ مُدَّ أحدهم ولا نصيفَه» .
أخرجه الشیخان فی “صحیحیھما” ۔
میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ )تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونابھی(صدقہ و خیرات میں ) خرچ کرلے تووہ اُن(صحابہ)میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا ایک پاؤاناج کےخرچ کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا (بخاری و مسلم)۔
دوسری حدیث میں ہے:
وفي “الصحيحين” أيضًا من حديث عمران بن حُصين – رضي الله عنه – أن رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – قال: «خيرُ الناس قرني، ثم الذين يلُونَهم، ثم الذين يلُونَهم». قال عمران: فلا أدري أذَكَر بعد قرنِه قرنَيْن أم ثلاثة.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں۔
اور بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ان کی فضیلت اس طرح بیان ہوئی ہے:
وأخرج الشيخان عن أبي سعيد الخُدري – رضي الله عنه – أنه قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقولون: هل فيكم من صاحبَ رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتحُ لهم. ثم يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقال: هل فيكم من صاحبَ أصحاب رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتَحُ لهم. ثم يأتي على الناس زمانٌ فيغزُو فِئامٌ من الناس، فيقال: هل فيكم من صاحبَ من صاحبَ أصحاب رسول الله – صلى الله عليه وسلم -؟ فيقولون: نعم، فيُفتَحُ لهم».
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی صحابی رسول ﷺ ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو انہیں فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور یہ پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے کسی صحابی کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تواُنہیں بھی فتح نصیب ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کچھ لوگ جنگ کریں گےاور پوچھیں گے: کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جسے اللہ کے رسول ﷺکے صحابی کی صحبت پانے والے کی صحبت نصیب ہوئی ہو؟ (یعنی کوئی تبع تابعی ہے؟)وہ کہیں گے: جی، تو ان کے ہاتھ پر بھی فتح ہوگی۔
(یعنی جنگ میں صحاباء ، تانعین و اتباعِ تابعین میں سے کسی کی بھی موجودگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کے نزول اور لوگوں کی فتح کا سبب ہوگا، اور تاریخ شاہد ہے ایسا ہی ہوا اسلام کے شروع کے تین سو سال کہ جوصحاباء ، تانعین و اتباعِ تابعین کے زمانے تھے اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلاگیا)
اور پیارے نبی علیہ السلام نے یہ بات بھی بیان فرمادی کہ انصار سے محبت کرنا سچے ایمان کی نشانی ہے ، اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔اس بارے میں صحیح بخاری و مسلم میں نبی علیہ السلام کا فرمان ہے۔
«آية الإيمان حبُّ الأنصار، وآية النفاق بُغضُ الأنصار» ۔
أخرجه الشیخان فی “صحیحیهما” ۔
انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے ، اور انصار سے بغض رکھنا منافق کی علامت ہے۔
سلف صالحین کاصحابہ کرام کےبارےمیں مؤقف
اور انہی صحیح اور صریح (واضح) نصوص کی بنیاد پرہی اہلِ حق نے سب سے افضل ترین شخصیات صحابہ کرام کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔
اسی ضمن میں امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“ونحبُّ أصحابَ رسول الله – صلى الله عليه وسلم -، ولا نُفرِطُ في حبِّ أحدٍ منهم، ولا نتبرَّأُ من أحدٍ منهم، ونُبغِضُ من يُبغِضُهم وبغير الحقِّ يذكُرهم، ولا نذكُرهم إلا بخيرٍ، وحبُّهم دينٌ وإيمانٌ وإحسانٌ، وبُغضُهم كفرٌ ونفاقٌ وطُغيان”.
اور ہم اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں، اور ان میں سے کسی کی محبت میں بھی غلو نہیں کرتے، اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے براءت کرتے (اور نہ ہی کسی پر تبرّاء کرتے )ہیں، اور ہر اس شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان (صحابہ) سے بغض رکھتا ہےاور جوان کی برائی کرتا ہے۔اور ہم ہمیشہ اُن کا ذکرفقط اچھائی ، خیر و بھلائی ہی کے ساتھ کرتے ہیں ،اُن (صحابہ )سے محبت کرنا دین، ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے۔
صحابہ کرام فخر واعزاز کے مستحق ہیں
اللہ کے بندو!
ان(صحابہ) کی محبت دین، ایمان اور احسان کا مجموعہ ہے؛ کیونکہ اس میں اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کی تکمیل ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ انہوں نے اللہ کے دین کی مدد کی، اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جہاد کیااور جان، مال اور خون سب کچھ قربان کردیا۔
اور زمانہ گزرنے کے باوجود بھی امت ان سے بھرپور محبت کرتی ہے، ان کی سیرت کا مستقل اہتمام کرتی ہے تاکہ اس کی خوبصورتی اور جلال کی بہترین صورت، بلندی، شرف ، عالی شان مقام اور عمدہ نمونہ نکھر کر سامنے آسکے۔
صحابہ کے بارے میں ہمیشہ اچھے نظریات رکھنا لازمی ہے
اور جو کچھ ان کے درمیان ہوا اس بارے میں گفتگو سے پرہیز کرنا، اوریہ عقیدہ رکھناکہ وہ سب مجتہد ہیں اور اس میں ان کے لئے اجر ہے، اللہ ان سے راضی ہوجائے اور انہیں بھی راضی کردے، اور اسلام اور اہلِ اسلام کی طرف سے اتنا بہترین بدلہ دے جو وہ اپنے نیک و کار اور متقی بندوں کو دیا کرتا ہے۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے احکامات اور نبی علیہ السلام کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور ہم سب سمیت تمام مسلمانوں کے لئے اللہ ذوالجلال والاکرام سے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
بیشک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد اور مغفرت مانگتے ہیں، اور ہم اپنے نفس کی شرارتوں اوربرے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔
یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر اور ان کی آل پر اور ان کے صحابہ پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما۔
صحابہ کی عظمت اور بُلندسیرت و کردارکے بارے میں سلف صالحین کے اقوال
حمدو ثنا کے بعد:
اللہ کے بندو!
جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
“من كان منكم مُستنًّا فليستنَّ بمن قد ماتَ؛ فإن الحيَّ لا تُؤمنُ عليه الفتنة، أولئك أصحابُ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم -، كانوا أفضلَ هذه الأمة، وأبرَّها قلوبًا، وأعمقَها علمًا، وأقلَّها تكلُّفًا، قومٌ اختارَهم الله لصُحبة نبيِّه وإقامَة دينِه، فاعرِفوا لهم فضلَهم، واتَّبِعوهم في آثارهم، وتمسَّكوا بما استطعتُم من أخلاقِهم ودينهم؛ فإنهم كانوا على الهُدى المُستقيم”.
آپ لوگوں میں جو شخص بھی کسی طریقے کو اپنانا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اُن کے طریقے کو اپنائے جو فوت ہوچکا ہے،(یعنی جواُسوقت فوت شدہ صحابہ تھے ) کیونکہ زندہ انسان کی فتنے سے بچنے کی کوئی گارنٹی نہیں، اور وہ لوگ محمدﷺکے صحابہ ہی ہیں ( جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں اور انہی کی پیروی میں بھلائی ہے)۔جواس امت کے افضل ترین لوگ تھے، انتہائی نیک دل، راسخ علم والے، کم سے کم تکلف کرنے والے، وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور اقامتِ دین کے لئے منتخب فرمایا، تو تم سب ان کی فضیلت کو پہچانو، اُن کے نقش قدم پر چلو،اور جتنا ممکن ہو ان کے اخلاق اور دین کو اپناؤ؛ کیونکہ وہ سیدھے راستے پر تھے۔
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک یہ بھی قول ہے:
“إن اللهَ تعالى نظرَ في قلوبِ العباد، فوجدَ قلبَ محمدٍ – صلى الله عليه وسلم – خيرَ قلوبِ العباد، فاصطفاهُ لنفسِه، وابتعثَه برسالتِه، ثم نظرَ في قلوبِ العباد بعد قلب محمدٍ – صلى الله عليه وسلم -، فوجدَ قلوبَ أصحابِه خيرَ قلوب العباد، فجعلَهم وُزراءَ نبيِّه، يُقاتِلون على دينِه”.
یقینا اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمدﷺ کا دل سب سے بہتر پایا، اسی لئے انہیں اپنے لئے چُن لیا، اور اپنا پیغام دے کر بھیجا، پھر محمدﷺ کے دل کے بعد بندوں کے دلوں کو دیکھا تو ان کے صحابہ کے دلوں کو سب سے بہترین پایا اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزرا ءبنادیا، جو اس کے دین کی خاطر جہاد کرتے تھے۔
اللہ کے بندو!
اللہ سے ڈریں اور صحابہ کرام کا حق، فضیلت و مرتبہ پہچان لیں، نبی علیہ السلام کے ساتھ ان کا کوئی بھی ایک لمحہ گزارنا بھی انتہائی فضیلت کا باعث ہے، جیسا کہ امامِ مفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا ہے:
“لمُقامُ أحدهم ساعة مع النبي صلى الله عليه وسلم خيرٌ من عمل أحدِكم أربعين سنة”.وفي رواية:”خيرٌ من عبادةِ أحدِكم عُمُره”.
کسی بھی صحابی کا نبی علیہ السلام کے ساتھ ایک لمحہ گزارنااتم میں سے کسی شخص کے چالیس دن کے عمل سے بہتر ہے۔اور ایک روایت میں ہے کہ اُس کی ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے۔
درود و سلام
ہمیشہ یاد رکھیں!
سب لوگوں کو اللہ تعالی نے خیرِ خلق پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الأحزاب – 56
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔
یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما، اور چاروں خلفاء ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے راضی ہوجا۔اور آل و اصحاب اور تابعین سے بھی راضی ہوجا، اور ان سے بھی راضی ہوجا جوقیامت تک ان کی پیروی کریں گے، اور اے سب سے زیادہ عفو و درگزر کرنے والے! ان کے ساتھ ساتھ اپنی مہربانی، کرم اور بھلائی کے ذریعہ ہم سے بھی راضی ہوجا۔