روزے کا فدیہ کیا ہے؟
سوال
ایک روزے کا کفارہ کتنا ہے نقد رقم کی صورت میں؟
جواب
وہ شخص جس میں روزہ فرض ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں رمضان کے اس ادا روزے میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کرچکا ہو عمداً بدن کے کسی جوف میں قدرتی یا مصنوعی منفذ (Opening) سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی غذا یا دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہو یا جماع کرے، اِن تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور روزے کی قضاء کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوگا۔
کفارے میں اس پر مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہوگا، اگر درمیان میں ایک روزہ بھی رہ جائے تو از سرِ نو رکھنا لازم ہوں گے، اگر اس کی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دینا لازم ہے، ایک صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع (پونے دو کلو ) گندم یا اس کی قیمت ہے۔
ایک مسکین کو ساٹھ دن صدقہ فطر کے برابر غلہ وغیرہ دیتا رہے یا ایک ہی دن ساٹھ مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار دےدے، دونوں جائز ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا قیمت دینے کے بجائے اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دن صبح وشام یا ایک مسکین کو ساٹھ دن صبح وشام کھانا کھلادے، تو بھی کفارہ ادا ہوجائےگا۔
اور اگر سائل کا مقصد روزے سے عاجز شخص کے لیے فدیہ سے متعلق پوچھنا ہے تو اس کا جواب درج ذیل ہے:
واضح رہے کہ روزے کا فدیہ اس صورت میں دیا جاتاہے جب کوئی شخص بہت زیادہ بوڑھا اور ضعیف ہونے کی وجہ سے بالکل روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ روزے کی بالکل استطاعت نہ ہو اور ڈاکٹروں کے مطابق آئندہ اس کی صحت کی امید نہ ہو۔ ایسے افراد کو ایک روزے کی جگہ ایک فدیہ (مذکورہ مقدار) دینے کی اجازت ہے۔ اگر کوئی مریض ایسا ہو کہ وہ گرمی کے طویل دن میں تو روزہ نہ رکھ سکتا ہو، لیکن سردی کے مختصر دنوں میں روزہ رکھ سکتاہو، یا امید ہو کہ سال، چھ ماہ میں روزے رکھنے کے قابل ہوجائے گا، اس کے لیے فدیہ دینے کی اجازت نہیں ہے، فی الوقت وہ مرض کی وجہ سے روزے چھوڑ دے، صحت مند ہونے کے بعد یا سردی کے ایام میں ان کی قضا کرلے۔
اگر کوئی مریض فدیہ دینے کے بعد روزے رکھنے پر قادر ہوجائے تو اس کے ذمے ان روزوں کی قضا لازم ہوگی، اور فدیے میں دی گئی رقم صدقہ بن جائے گی۔
نوٹ: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دار الافتاء کی جانب سے امسال 1443ھ - 2022ء کراچی اور اس کے مضافات کے لیے صدقہ فطر کی مقدار دج ذیل ہے:
گندم:150
جو:425
کھجور:950
کشمش:2550
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق.
ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية."
(کتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار، 207/1/ دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة... إذا أكل متعمداً ما يتغذى به أو يتداوى به يلزمه الكفارة، وهذا إذا كان مما يؤكل للغذاء أو للدواء فأما إذا لم يقصد لهما فلا كفارة وعليه القضاء، كذا في خزانة المفتين ... وإذا أصبح غير ناو للصوم ثم نوى قبل الزوال ثم أكل فلا كفارة عليه، كذا في الكشف الكبير".
(کتاب الصوم، النوع الثاني ما يوجب القضاء والكفارة، 205/1/ دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100560
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن