یاددھانی.....!
زندگی کل بھی اتنی ہی نازک تھی جتنی آج۔ موت اتنی آسان تھی جتنی آج۔ بات ساری احساس کی ہے۔۔۔
طب کے شعبے سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں نے زندگی اور موت کے درمیان جس قرب کو محسوس کیا ہے، اس نے زندگی کی نزاکت اور بے ثباتی کا احساس بارہا دل میں ڈالا ہے۔
موت کے ساتھ پہلی بار واسطہ محمد موسی کے انتقال کے وقت ہوا تھا۔ محمد موسی، لگ بھگ اسی برس کے قریب ایک بھرپور بڑھاپا گزار رہے تھے، ہمارے بزرگوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اکثر کلینک پرآجاتے اور چائے کی فرمائش ہوتی تھی۔لیکن ان کی آمد ہمیشہ مغرب کی نماز کے بعد ہوا کرتی تھی۔ اپنے ماضی کے قصے، کچھ حالات حاضرہ پر تبصرہ ، کچھ اپنی طبیعت کا موضوع۔ لیکن اس دن ظہر کی نماز کے بعد آئے تو مجھے کچھ اچنبھا ہوا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ آج جب میں نماز پڑھ رھا تھا تو مجھے ایسے لگا جیسے میرا جسم ایک لمحے کو سن ہوگیا ہے،لیکن پھر سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ میں نے مذاق سے کہا کہ آپ نے میرے ساتھ چائے پینے میں کافی غیر حاضریاں کر ڈالی ہیں ،اسلئے ایسا ہوا ہوگا۔ پہلے چائے پیتے ہیں ، پھر طبیعت بھی چیک کر لیتے ہیں۔ لیکن ابھی میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ کہنے لگے بالکل ایسے ہی ہوا تھا اور ان کا جسم ڈھلک گیا، ڈسپنسر کی مدد سے بستر تک لے کر گیا تو ان کا جسم روح سے خالی ہوچکا تھا۔
اس دن بیس بائیس سال کے نوجوان کو سینے میں معمولی درد کے ساتھ لیکر آئے تو چیک اپ کے بعد میں نے بتایا کہ دل کے اٹیک عموماً اس عمر میں نہیں ہوتے لیکن اس کی ساری علامات کچھ غیر معمولی ہیں۔اس لئے ایک بار دل والے ہسپتال ضرور چیک کروا لیں۔لیکن جونہی نوجوان کمرے سے نکلنے لگا توگر گیا ۔اٹھا کر بسترتک لیجایا گیا تو اس کی روح اور جسم کا ناطہ ٹوٹ چکا تھا۔
لیکن جس موت نے میرے احساسات کو جنجھوڑ کے رکھ دیا تھا وہ ایک ایسے نوجوان کی موت تھی،جس نے گھریلو جھگڑے کے بعد گندم میں رکھنے والی زہریلی گولیاں کھا لی تھیں اورمیں کرب کے ان لمحوں کو زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتا جب تکلیف اور اذیت میں وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر منتیں کر رہا تھا کہ میری جان بچا لو۔ ابا مجھے معاف کر دو۔ اماں میرے لئے کچھ کرو۔ڈاکٹر مجھے سے غلطی ہوگئی مجھے بچا لو۔۔۔لیکن اگلے چند لمحوں میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔
ایسے ہی کتنے ہنستے بستے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھ چکا ہوں۔ کچھ اتنے اچانک اور کچھ عمر کے اس حصے میں جب ابھی زندگی کی کونپلیں بھی صحیح طرح سے نہیں کھلی تھیں ۔بیس سالہ عائشہ میرے کلینک سے دوا لیکر نکلی ابھی کچھ دور ہی گئی تھی کہ ڈوپٹہ موٹر سائکل کے پہیے میں آگیا اور سر سڑک سے ٹکڑایا اور زندگی کا ساتھ ختم۔
ننھا مہتاب اس دنیا میں آیا توسارے آنگن میں روشنی پھیل گئی۔کیس گھر پر ہی ہوگیا۔سب بچے کی خوشیوں میں لگ گئے لیکن جب ماں کے زرد چہرے پر نظر پڑی تو سب کے اوسان خطا ہوگئے۔ میرا کلینک قریب تھا، اٹھا کر میرے پاس لے آئے، لیکن اس وقت تک ممتا روٹھ چکی تھی۔
پتا ہی نہیں چلا کہ عثمان کھیلتے کھیلتے کیسے پانی کے ٹب تک جا پہنچا، جب ماں کی نظر پڑی تو ننگے پاؤں لیکر دوڑی۔ لیکن میرے سامنے اس نے اپنی آخری سانس لی تو میرے اندر اس کی ماں کو کچھ بھی بتانے کا حوصلہ نہیں تھا۔
عبدللہ اپنے باپ کی دوائی کے بابت پوچھنے میرے پاس آیا۔ اورکچھ دیر بعد ڈکیتی کی وادات میں اس کے قتل کی خبر سنی تو دیر تک، میں سکتے میں رھا۔
پندرہ سولہ سالہ فاطمہ کو اپنے باپ کے ساتھ گنے کی ٹرالی کے ساتھ موٹر سائیکل کے ایکسڈینٹ کے بعد جب کلینک پر لایا گیا تو ابتدائی طبی امداد کے بعد سی ٹی سکین کیلئے ریفر کیا تو وہ خود اپنے قدموں پر چل کر بیرونی گیٹ تک گئی۔ لیکن پھر چکر کھا کر ایسی گری کہ دوبارہ اٹھ نہیں پائی۔
افضال صاحب کا گھر میرے کلینک کے بالکل قریب ہے۔ جب لائٹ اپنے مقرہ وقت پر نہیں آئی تو جنریٹر سٹارٹ کرنے لگے تو اچانک بجلی آگئی اور کرنٹ لگنے سے کوئی آواز بلند کئے بغیر اپنے حقیقی مالک سے جاملے ۔
ایسے ہی کتنے لوگوں کے زندگی سے تعلق ٹوٹنے کا گواہ ہوں۔
اور شائد ہم سب ہی موت کے ایسے سینکڑوں، ہزاروں واقعات کے عینی شاہد ہوتے ہیں۔ ہم ہر روز جنازوں کا اعلان سنتے ہیں۔ اپنے پیاروں اور قریبی رفقا کے کندھوں کو سہارا دیتے ہیں۔لیکن پھر بھی سماج کی بنائی ہوئی مصنوئی آلائشوں کیلئے زندگی کی اس سب سے بڑی حقیقت اور سچائی سے منہ موڑ لیتے ہیں۔اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو فریب کا حلقہ اور زندگی کا طلسم دونوں ٹوٹ جائیں گے۔زندگی ایک روکھی حقیقت کی نمائندہ بن جائے گی۔موت دنیا کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقت ہے۔دنیا میں خدا اور مذہب کے منکرین تو بہت مل جائیں گے۔لیکن موت سے انکاری شائد ہی مل سکے۔
ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے۔جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو وہ ایک دن ختم بھی ہوجائے گی۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے ،تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ‘‘ ( الذاریات : 58۔56 )
لیکن دنیا کتنی قیمتی جگہ ہے؟ اس میں کس طرح رہا جائے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کریگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں۔
ہاؤس جاب کے دوران دس بارہ سال کی ایک بچی فاطمہ مرگی کے دوروں کے ساتھ ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔اس کے دوروں کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں موجود ہر دوا اور ہر کمبینیشن استعمال کر ڈالا لیکن اسے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے جھٹکے شروع ہوجاتے اور اپنی مرضی سے رک جاتے۔ اور کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ گزر نے کے بعد اس کے جھٹکے کنٹرول ہونا شروع ہوئے تو ہسپتال سے رخصتی ہوئ۔ میں جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سنتا یا پڑھتا ہوں کہ دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر تو مجھے فاطمہ اور اس کی بیماری یاد آجاتی ہے۔ڈیڑھ دو ماہ کے اس دوران نہ تو اس کے گھر والوں نے ضرورت سے زائد کوئی چیز ہسپتال میں لے کر آئے اور نہ ہی لمبے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ جمع کرکے رکھا اور اتنے طویل قیام کے باوجود بھی ہمیشہ ان کی نظر وہاں سے جانے پر ہوتی تھی۔
ہم اپنا بچپن گزار چکے ہیں، کچھ جوانی گزار رہے ہیں اور کچھ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ سنی سنائی باتیں نہ سہی لیکن جو وقت ہم گزار چکے ہیں، اس کے گواہ تو ہم ہیں۔ اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ موت برحق ہے تو پھر اس کو یاد رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔نہ تو مولویوں کو برا بھلا کہنے سے رکنے والی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے نظریں چرا لینے سے موت ٹلے گی۔ لیکن ڈر تو اس بات سے لگتا کہ کہیں کل قیامت کے روز ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوگا جن کے بارے مین قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ۔
قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے۔
( الروم : 55 )
اور میں اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکوں گا جب میرا قرآن یہ کہ رھا ہے
اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔
( ق : 19 )
ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں اور تصور کریں کہ جب لوگ ہمیں مٹی کے حوالے کرکے خود لوٹ جائیں گے،کوئی دوست ، والدین، اولاد ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہونگے۔ مٹی میں دبے جانے والوں کےقدموں کو سن رہے ہونگے۔ چیخیں، پکاڑیں۔۔۔ لیکن کوئی سن نہیں پائے گا۔کتنا سخت اور ہولناک منظر ہوگا۔ساری خواہشیں اور تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔کاش ہمارا معاملہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ ساری کوتاہیوں اور سستیوں پر پردہ پر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔وہاں تو حساب دینے ہیں۔۔اللہ سے دعا ہے ہمیں اس دن کی سختی سے بچائے۔ قبر میں آسانی نصیب فرمائے۔روزآخرت کے دن جہنم سے نجات فرمائے آمین۔
میم سین