ویب سائٹ بناکر گوگل اشتہار کے ذریعے پیسے کمانے کا شرعی حکم
سوال
ویب سائٹ بناکر گوگل اشتہار لگانا اور اس کے ذریعے آمدنی کرنا جائز ہے؟
جواب
واضح رہے کہ اگر ویب سائٹ پر اشتہارات نشر کرنے والاجان د ار کی تصویر والا اشتہار نشر کرے، یا اس اشتہار میں میوزک اور موسیقی ہو، یا اشتہار غیر شرعی ہو، یا کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو، یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو، تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے اور ایسی صورت میں ان اشتہارات سے اگر کوئی کمائی کی ہو تو اسے صدقہ کردے۔
عام طور پر اگر اشتہار بنانے والے کی نشر کردہ اشتہار میں مذکورہ خرابیاں نہ بھی ہوں تب بھی گوگل کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہار میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق گوگل پر ویب سائٹ بناتے وقت ہی معاہدہ کیا جاتاہے کہ مخصوص مدت میں ویب سائٹ کے سبسکرائبرز اور ویورز مخصوص تعداد تک پہنچیں گے تو گوگل انتظامیہ اس ویب سائٹ پر مختلف لوگوں کے اشتہارات چلانے کی مجاز ہوگی، اور ویب سائٹ بنانے والا اس معاہدے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتاہے، إلّا یہ کہ اشتہارات بند کرنے کے لیے وہ باقاعدہ فیس ادا کرے اور ویب سائٹ کو کمرشل بنیاد پر استعمال نہ کرے، اور ان اشتہارات کا انتخاب کسی بھی یوزر کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا مختلف لوگوں کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، ویب سائٹ بناتے وقت چوں کہ اس معاہدے پر رضامندی پائی جاتی ہے، لہٰذا گوگل پر کمرشل بنیاد پر ویب سائٹ بنانا ہی درست نہیں ہے، اور ویب سائٹ بناتے وقت گوگل انتظامیہ کو جب ایڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو اس کے بعد وہ مختلف ڈیوائسز کی سرچنگ بیس یا لوکیشن یا ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتے ہیں، مثلاً اگر پاکستان میں اسی ویڈیو پر وہ کوئی اشتہار چلاتے ہیں، مغربی ممالک میں اس پر وہ کسی اور قسم کا اشتہار چلاتے ہیں، اور پاکستان میں ہی ایک شخص کی ڈیوائس پر الگ اشتہار چلتاہے تو دوسرے شخص کی ڈیوائس پر دوسری نوعیت کا اشتہار چل سکتاہے، جس میں بسااوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی کرتے ہیں، ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر ویب سائٹ پر اشتہار نشر کرکے پیسے کمانے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔
علاوہ ازیں ویب سائٹ کے ذریعے اگر آمدن مقصود ہو تو اس سلسلے میں انتظامیہ سے اجارے کا جو معاہدہ کیا جاتاہے وہ بھی شرعی تقاضے پورے نہ ہونے (مثلًا: اجرت کی جہالت) کی وجہ سے جائز نہیں ہوتا۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ ویب سائٹ بنا کر اس پر اشتہار نشر کر کے کمائی کی صورتیں مندرجہ ذیل ہوتی ہیں:
۱۔ ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعہ کمائی: گوگل پر جب کوئی ویب سائٹ کھولتا ہے اور اس پر مواد ڈالتا ہے تو ویب سائٹ کھولنے والا گوگل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ گوگل مختلف قسم کے ایڈز اس کے چینل پر چلائے، گوگل ان ایڈز سے جو حاصل کرتاہے تو حاصل ہونے والی آمدنی اس ویب سائٹ اور گوگل کے مابین تقسیم ہوتی ہے، گوگل اشتہارات دینے والوں سے لوگوں کے ہر کلک کے حساب سے رقم وصول کرتا ہے۔
۲۔ گوگل کے جو کسٹمرز ہیں گوگل ان سے سبسکرپشن فیس لیتا ہے اور جب وہ لوگ کسی ویب سائٹ کو دیکھتے ہیں تو گوگل اس ویب سائٹ والے کو اس سبسکرپشن فیس میں سے کچھ دیتا ہے۔
اب ہر ایک کا حکم ترتیب وار ذکر ہے:
۱۔ ایڈ کے ذریعہ کمائی کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے جو گوگل اور ویب سائٹ کے مالک کے درمیان ہوتا ہے۔ گوگل ویب سائٹ کے مالک کو اس کے ویب سائٹ کے استعمال پر (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں) اجرت دیتا ہے۔
یہ اجرت مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال نہیں ہے:
الف:۔گوگل کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم كا بھی ایڈ چلائے، ان میں جائز ،ناجائز ہرقسم کی چیزوں کی تشہیر کی جاتی ہے ،نیز اکثر ایڈ ذی روح یعنی جاندار کی تصاویر پر مبنی ہوتی ہیں اور سائل کو انہیں ایڈز کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ تعاون على الاثم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا اور کمائی بھی حلال نہیں ہوگی۔
ب:۔ اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ گوگل ایک متعین اجرت نہیں طے کرتا، بلکہ ایڈسنس اشتہار سے 68٪ رقم لیتے ہیں اور ویب سائٹ کے مالک کو 32٪ دیتے ہیں گوگل اسے اپنے پاس رکھتا ہے اور گوگل کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو اس کا 32فیصد بھی مجہول ہوتا ہے، ویب سائٹ کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر ویب سائٹ پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔
۲۔ گوگل ممبر سے بعض سہولیات (جو اشتہار دیکھنے اور ڈاون لوڈ کرنے سے متعلق ہوتی ہیں)کے بدلہ سبسکرپشن فیس (اجرت) لیتا ہے اور جب یہ ممبر کسی ویب سائٹ کو دیکھتا ہے تو گوگل اس پر ویب سائٹ والے کو رقم دیتا ہے، یہ رقم گوگل ویب سائٹ والے کو دیتا ہےویب سائٹ استعمال کرنے کی اجرت ہے ، یہ اجرت بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے شرعًا جائز نہیں ہے:
الف:۔ ویب سائٹ پر موجود اشتہار اگر جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہیں تو یہ ’’اجرت علی المعاصی‘‘ ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔
ب:۔ اگر اشتہار شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ ویب سائٹ کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے جب کہ مذکورہ صورت میں ہماری معلومات کے مطابق اس طرح ویب سائٹ والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"و منها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعًا فلايجوز استئجار الآبق و لا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادًا استيفاؤها بعقد الإجارة و لايجري بها التعامل بين الناس فلايجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومةً."
(کتاب الاجارۃ ج:4،ص:411، ط:دار الفکر)
فتاوی شامی ميں ہے:
"(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي)."
(کتاب الجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:55، ط:سعید)
وفیه أیضاً:
"لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبه."
(کتاب الحظر الاباحة، باب البیع، ج:6، ص:385، ط:سعید)
وفیه أیضاً:
"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام: استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".
(کتاب الحظر والإباحة ج:6، ص:348،349، ط: سعيد)
وفیه أیضاً:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علي تحريم تصوير الحيوان، و قال: وسواء لما يمتهن أو لغيره فصنعه حرام لكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله".
(کتاب الصلاۃ، فرع لا بأس بتكليم المصلي وإجابته برأسه، ج:1، ص:647، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403100914
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن