ابو محمد
رجسٹرڈ ممبر
وه مردِ جَری
{تاریخِ شہادت 22 فروری 1990}
{تاریخِ شہادت 22 فروری 1990}
یہ سنہ 1952ء کی بات ہے، جھنگ میں ایک غریب مگر دیندار شخص محمد ولی صاحب کے گھر ایک نو نہال اور مختصر بچے نے آنکھ کھولی، اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ کمزور سا بچہ مستقبل میں کیا کارہائے نمایاں سر انجام دینے والا ہے۔۔۔۔
بھلا یہ سامراجی قوتوں کو تھی کہاں خبر۔
کہ پھول سا یہ طفل مختصر عظیم کس قدر۔
پلٹ جھپٹ ہے اس میں باز کی تو شیر کا جگر۔
کہے گا جو سٹیج پر وہی کہے گا دار پر۔
اس طفلِ مختصر کا نام "حق نو از " رکھا گیا۔
مختلف تعلیمی دانشگاہوں سے فیض پانے کے بعد{اُولیٰ سے مشکوٰۃ شریف تک دارالعلوم کبیروالا اور دورہ حدیث شریف جامعہ خیرالمدارس ملتان} بالآخر انہیں جامع مسجد پپلیاں ( حال جامع مسجد حق ۔نواز ۔شہید۔ جھنگ) کا خطیب مقرر کردیا گیا۔
------------
ایران میں جب خمینی کاتعفن زدہ اورخونی انقلاب برپاہوچکا تو اسلامی ممالک کاماحول بھی یکسربدلنےلگا،ان دنوں پاکستان بھرمیں بالعموم اور جھنگ میں بالخصوص شی عت اپنے پنجے گاڑھ چکی تھی، ایرانی غنڈے ملک بھر میں وحشیانہ کارروائیاں کر رہے تھے۔ وہ صحابہ کرام اور ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم کی عزت پر برسرِ عام حملے کر رہے تھے۔ سنیت کا خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہو گیا تھا۔ نفاذِ فقہ جعفریہ کے مطالبات زور پکڑ رہے تھے۔ کلیدی عہدوں پر روافض کو براجمان کرایا جارہا تھا، علمائے حق کو چن چن کر نشانہ بنایا جار ہا تھا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خمینی اور اس کے انقلاب کے ترانے گانے میں رات دن محو تھا، صحابہ کرام کی مدح سرائی قابلِ گردن زدنی جرم تصور کی جاتی تھی۔ ایران سے برآمد شدہ لٹریچر کی گھر گھر تقسیم ہو رہی تھی۔ ایرانی قیادت کی عزت افزائی امام کعبہ سے بھی بڑھ کر ہو رہی تھی۔ بکاؤ ملا خمینی کی تعریف میں شبانہ روز رطب اللسان تھے۔ حضرات صحابہ کرام کے خلاف زبان درازی اور ان کی توہین برملا ہور ہی تھی، پاکستان میں شی عہ انقلاب برپا کرنے کی تیاریاں عروج پر تھیں اور اس سازش میں رکاوٹ بننے والا ہر فرد ایرانی غنڈہ گردی کا نشانہ بن جاتا تھا۔ اصحابِ پیغمبر کے خلاف سنگین گالیوں پر مشتمل خمینی اور اس کے پیشواؤں کی کتابیں بے تحاشا فروخت کی جارہی تھیں۔ اہل سنت کے خلاف نفرت کا بازار ہر طرف گرم تھا۔ چند ٹکے کے شی عہ لحظہ بھر میں حکومت اور تھانہ کچہری
سے اپنے مطالبات منوالیا کرتے تھے۔ خمینی اور اس کے ایران کے خلاف منہ سے اور قلم سے صادرہونے والا ایک حرف بھی
موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ چار سو رفض کی وحشیانہ سرگرمیاں جوبن پر تھیں۔ اہل سنت کے لئے سر اٹھاکر
چلنا دو بھر ہو گیا تھا۔ قرآن و سنت کے جلسہ کی اجازت جوئے شیر لانے کے برابر تھی۔سرکاری افسران کی رعونت انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔ سنیت پس چکی تھی۔ ان کو بیدار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آرہا تھا۔ سنیت کے حقوق غصب ہو چکے تھے اور ان کے لئے حقوق کا مطالبہ بھی ناقابل معافی جرم تصور کیا جاتا تھا۔ ماتمی جلوس اور اس کے شرکاء گلی گلی اور کوچہ کوچہ شر انگیزی کو فروغ دے رہے تھے۔ اور سب سے خطر ناک صورت حال یہ تھی کہ شی عت یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کر رہی تھی۔
اہل سنت ان تمام تر کارروائیوں کو بڑی بے بسی سے دیکھتے ، برداشت کرتے اور کسی مسیحا کے انتظار میں زہر کا گھونٹ پی کر رہ جاتے
مگر
انہیں دور دور تک کہیں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ مایوسی کی ایک تاریک اور طویل رات ان کے پیش نظر تھی۔ رفض کا ایک سیاہ سایہ انہیں دراز تر ہوتا نظر آرہا تھا۔ خمینی ازم کے کالے بادل انہیں ملک کے طول و عرض کا احاطہ کرتے دکھائی دےرہے تھے۔
عین اسی وقت جھنگ کی دھرتی سے اٹھنے والے ایک شعلہ نے کفر و جبر سے معمور ان گھٹاؤں کا ایک کونہ پھاڑ ڈالا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شعلہ جوالہ روشنی کے چراغ بانٹتا چلا گیا اور ستم ظریفیوں کے گھنگھور بادل چَھٹتے چلے گئے، کفر کی ظلمتوں میں حق کی قندیلیں فروزاں کرنے والے وہی جامع مسجد پپلیاں کے خطیب تھے جنہیں آج امیر ۔عزیمت ۔مولانا۔ حق۔ نواز۔ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
----------
میں سوچتا ہوں حضرت امیر عزیمت پر کس عنوان سے لکھوں ؟ ان کی زندگی کا ہر پہلو اس قابل ہے کہ اسے لکھا جائے ، سنا جائے اور پھیلایا جائے، ان کی حیات کا ہر گوشہ تحریر کے لائق ہے۔ ان کی زندگی کا ہر انداز اپنانے کے لئے موزوں ہے۔ ان کی گفتگو کا ایک ایک حرف توجہ کا مستحق ہے اور ایک ایک تقریر مستند حوالہ ہے۔
پھر جس عنوان پر بھی لکھیں تو کس قلم سے لکھیں؟ کن الفاظ میں لکھیں ؟ کس انداز میں لکھیں ؟اور کون سی تعبیرات لائیں ؟
اردو کے الفاظ محدود، تعبیرات ناقص، انداز پھیکے ، قلم بے بس ، سوچ عاجز اور حضرت امیر عزیمت ان سب سے بلند ۔
----------
شعلہ نوا مقرر ، حق گو خطیب، سراپا اخلاص واعظ ، فصاحت سے بھر پور تقریر ، درد سے معمور بیان، بلا کی بلاغت ، بات سمجھانے اور منوانے کا زبردست انداز ، باوقار لب و لہجہ ، روانگی اور بہاؤ میں اعتدال، جوش کے ساتھ ہوش کا مکمل ساتھ ، بہترین الفاظ کا چناؤ ، جملوں کا برمحل استعمال ، ہر لفظ گویا نوکِ قلم سے لکھا ہوا۔ اثر انگیز گفتگو " بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے " جس شخص کی کیسٹ قیادت ڈھاتی ہو اس کی براہِ راست تقریر کا کیاعالم ہو گا!!۔ مجمع کو ہمہ تن متوجہ کرنے اور رکھنے کا سلیقہ ، سامعین کو ہمنوا اور ہم فکر بنانے کا منفرد طرز، مشکل مسائل عام
فہم انداز میں پیش کرنے کا زبردست ملکہ ، دل و دماغ اور زبان میں بے داغ یکسانیت ، عشقِ مصطفی، حبِّ اصحابِ رسول
اور اسلاف سے وارفتگی پیدا کرنے کا قابل تقلید اور لائق رشک ڈھنگ بالفاظِ شورش۔۔۔
اس کی زباں کی جنبشِ ادنیٰ لؤلوئے لالہ ڈھال چکی ہے۔
اس کی نظر تجدید کی خوگر ، اس کا چلن تقلید کے قابل۔
اس کی فصاحت معدنِ شعری، اس کی بلاغت مصدرِ معنیٰ۔
اس کی نفاست گلشن گلشن، اس کی لطافت محفل محفل۔
اس کی روانی گنگ و جمن میں ، اس کی کہانی دار و رسن میں۔
اس کی سیاست جادہ جادہ، اس کی قیادت منزل منزل
اس کے ادب میں بانگِ رجز ہے، بانگ رجز میں جوشِ جنوں ہے۔
جوشِ جنوں میں سوزِ دروں ہے، سوزِ دروں میں جذب ہے شامل۔
آپ کی زبان سے نکلنے والے حروف کیا تھے!! گویا موتیوں کے قطرات تھے جس سے اہل سنت دامن بھرتے تھے
یا
آگ کے شعلے تھے جو اہل تشیع کی تقیہ پر استوار عمارتوں کو خاکستر کر دیتے تھے۔ آپ الفاظ کی صورت میں باطل کے آشیانوں پر آگ برساتے تھے۔ کفر کے ایوانوں میں کھلبلی مچادینے والی گرج رکھتے تھے۔ دجل کی دیواروں میں شگاف کر دینے ، نفاق کی بنیادوں میں دراڑیں ڈال دینے اور سبائیت کے محلات ہلا دینے والی للکار رکھتے تھے۔ ان کی زبان ہر
ظالم و جابر کی گردن پر أہنی تلوار اور باطل کے ناسور کے لئے تیز دھار نشتر تھی۔
وہ نشترِ زبانِ حق جہاں جہاں بھی چل گیا۔
مریضِ شرک و رفض کا غلیظ خوں نکل گیا۔
ان کی خطابت میں ہواؤں کا رخ موڑ دینے کی صلاحیت، حالات کا دھارا پھیر دینے کی استعداد اور طوفان تھما دینے اور برپا کر دینے کی قوت تھی، ان میں ماحول کا رخ بدل دینے کی طاقت اور دلوں پر چھا جانے کی لیاقت تھی۔
نہ تاج تھا، نہ راج تھا، نہ زور و زر ،نہ مال تھا۔
مگر دلوں کی سلطنت پہ قبضۂ کمال تھا۔
ان کی ایک ہی تقریر خوابیدہ جذبات کو انگڑائیاں لینے پر مجبور کر دیتی تھی۔ خفتہ ضمیروں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی، عزائم میں پختگی اور ولولوں میں تازگی پیدا کر دیتی تھی۔ دینی حمیت اور مسلکی غیرت بیدار کر دیتی تھی۔ اپنے جائز مطالبات منوانے اور حقوق حاصل کرنے کا عزم جوان کر دیتی تھی، جبر و استبداد اور ظلم و سربیت کے بھیانک طوفانوں میں جینے کا انداز سکھا دیتی تھی۔ سرمایہ داری ، جاگیر داری اور وڈیرا شاہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ اور تھانہ کچہری میں بے باکانہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرات عطا کر دیتی۔ منزل کے آگے حائل پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا جذبہ فراہم کردیتی اور مشکلات کی وادیوں کو بخوشی عبور کر جانے کا مزاج بنادیتی تھی، صحابہ کرام کی محبت اور دشمنانِ صحابہ کی نفرت دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھر دیتی اور تھانہ قانون کی بے ضابطگیوں کا دبدبہ ذہنوں سے کھینچ لیتی تھی۔
ایک ایک لفظ حوصلہ افزاء، ایک ایک حرف ایمان افروز ،ایک ایک کلمہ جرات آمیز، ایک ایک بول ذہن ساز اور ایک ایک جملہ انقلاب آفریں۔۔
بجا فرمایا تھا " حکومت ایک ماہ میرا راستہ نہ روکے ، ایک ماہ مجھے چوکوں اور چوراہوں پر تقریر کرنے دے۔ اگر شی عت کو ایران جانے پر مجبور نہ کر دوں تو مجھے جلا وطن کر دیا جائے "
بلاشبہ حضرت امیر عزیمت کے بیانات نے شی عت کے چہرے سے تقیہ اور منافقت کا نقاب چوراہے پر اتار پھینکا ہے اور اب وہ صدیوں تک اسلام کے لباس میں رونما نہ ہو سکے گی۔ آپ نے چودہ سالہ ریشہ دوانیاں اور اسلام کے خلاف گھناؤنی سازشیں طشت از بام کر دیں، گزشتہ عہد میں ان کا قبیح کردار امتِ مسلمہ کے سامنے کھول ڈالا ، رفض کی داغدار تاریخ اور منافقانہ کار کردگی دو ٹوک بیان کر دی۔ صرف دفاع کی روش یکسر بدل کر دجل و تلبیس پر مبنی ایوانوں پر اقدامی حملے کئے۔ ان کی رعونت قدموں تلے روند ڈالی۔ لباسِ کبر کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ خمینی انقلاب کو اسلامی انقلاب باور کرانے کی کوششیں پیوندِ خاک کر ڈالیں۔ خمینی کو عالمِ اسلام کا ہیرو ثابت کرنے کی کاوشیں دم توڑ گئیں۔ پاکستان کو ایران کی کالونی بنانے کے خواب ادھورے رہ گئے۔ اسلامی دنیا کو مٹھی کر لینے کے شیعی عزائم دھرے رہ گئے۔ اہلِ
سنت علماء کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے پروگرام خاک میں مل گئے۔ نفاذِفقہِ جعفریہ کے نعرے جوتے کی نوک پر
رکھ دیئے گئے۔ خمینی کی مدح سرائی کرنے والے بکاؤ ملاؤں کے راگ ’ ہینگ ، جتنا توجہ بھی حاصل نہ کر سکے۔
فرقہ پرستی کے طعنے اس مردِ جری کو ایک لمحہ کے لئے بھی نہ روک سکے ۔ تشدد پسندی کی باتیں صدا بصحراء ثابت ہوئیں۔
جیل، تھانہ ، قانون، بیڑیاں، ہتھکڑیاں، تشدد، دھمکیاں اور حالات کے سرد و گرم تھپیڑے اس کے عزائم میں تزلزل اور ارادوں میں معمولی سی لغزش بھی پیدا نہ کر سکے۔ وہ تنہا مصائب کی چٹانوں سے ٹکراتا رہا۔ وہ اکیلا تکلیف کے سمندر عبور کرتا رہا۔
وہ بارہا موت کی دیوی سے آنکھ مچولی کرتا رہا۔ وہ متعدد بار موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہا۔ وہ نحیف جسم اور لاغر جان پر آئےروز ڈنڈے برداشت کر تا رہا۔ حالات کے بے رحم طمانچے اس پر بار بار پڑتے رہے، وہ اکیلی جان تشدد اور ستم ظریفی کے بے شمار وار سہتی رہی۔ جبر و استبداد کی نئی نئی اور کئی کئی داستانیں اس پر رقم کی گئیں۔۔۔۔
ظلم و ستم کی بارش، ہاتھوں میں ہتھکڑی ۔پر۔۔
حق بات سے رکے ہیں کب ؟ حق ۔نواز۔ جھنگوی؟
الغرض
ظلم کی وہ کون سی قسم ہے جو اس پر آزمائی نہ گئی ہو ---- تشدد کا کون سا طریقہ ہے جو اس پر پرکھا نہ گیا ہو ------ دکھ کی کون سی کہانی ہے جو اس پر رقم نہ کی گئی ہو ------ آزمائش کا کون ساحربہ ہے جو اس پر جانچا نہ گیا ہو ------ درد کی کون سی نوع ہے جو اس پر روا نہ رکھی گئی ہو۔۔۔۔۔۔ مصائب کا کونسا پہاڑ ہے جو اس پر توڑا نہ گیا ہو۔۔۔۔۔۔ آلام کی کونسی وادی ہے جس سے اسے گزارا نہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ زیادتی کی کونسی چکی ہے جس میں اسے پیسا نہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ ایذاء کے وہ کونسے انگارے ہیں جن پر اسے لٹایا نہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ ضرر کے وہ کونسے دریا ہیں جنہیں عبور نہ کرایا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ جور کا وہ کونسا کوڑا ہے جو اس پر برسایا نہ گیا ہو۔۔۔۔۔۔ تکلیف کا وہ کون سا انداز ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ استبداد کا وہ کونسا گولا ہے جو اس پر داغا نہ گیا ہو۔۔۔۔۔۔ ستم گری کا وہ کون سا پیالہ ہے جو اسے پلایا نہ گیا ہو۔۔۔۔۔۔ آزار کا وہ کون سا نیزہ ہے جو اسے چبھویا نہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ جبر کی وہ کون سی تلوار ہے جو اس پر سونتی نہ گئی ہو۔۔۔۔۔۔ سختی کا کونسا طوفان ہے جو اس پر برپا نہ کیا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ سربیت کا کونسا اوچھا وار ہے جو اس پر کیا نہ گیا ہو ۔۔۔۔۔۔ کرب کی کون سی
قیامت ہے جو اس پر ڈھائی نہ گئی ہو ۔۔۔۔۔۔ اذیت کا کون سا موقع ہے جسےہاتھ سے جانےدیاگیا ہو ۔۔۔۔۔۔
وہ سیخ پر کباب کی طرح رہا حیات میں۔
جو بیڑیاں تھیں پاؤں میں تو ہتھکڑی تھی ہاتھ میں۔
جو اہلِ زر تھے تاک میں تو اقتدار گھات میں۔
مگر وه عزمِ غزنوی بِکا نہ سومنات میں۔
اس سب کے باوجود وہ
اپنے مشن سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ اپنے کاز میں ایک لحظہ کے لیے بھی لچک دکھانے کے
روادار نہ ہوئے۔ اپنے موقف پر مسلسل قائم رہے ، اپنی راہوں پر لگاتار رواں رہے ، اپنی منزل کی سمت پیہم قدم
بڑھاتے رہے۔ سفر کی طوالت انہیں تھکا نہ سکی، ناہموار راستوں میں قدم ڈگمگائے اور لڑکھڑائے نہیں۔ آبلہ پائی
انہیں روکنے سے بے بس ہو گئی۔ ناصحین و دانشمند انہیں حیرت سے تکتے ہی رہ گئے اور وہ دیوانہ وار آگے بڑھتے چلےگئے۔۔۔
کہتا تھا فلک تو ! جس کو گستاخ ستارا۔
ٹوٹا ہے تجھے عشق کے آداب سکھا کر۔
شاہین اڑا قیدی پرندوں کو بتاکر۔
ٹکراؤ سلاخوں سے اڑو خوں میں نہا کر۔
الغرض
وہ اپنوں کی زبانوں کے نشتر اور مخالفین کی تلواروں کے زخم برداشت کرتا ہوا آگے ہی بڑھتا گیا۔۔۔۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش۔
میں زہرِہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔
اور 22 فروری 1990 کو جب اپنے گھر کی دہلیز پر اس کا گرم اور سرخ خون بہہ رہا تھا تو اس کے مشن کی صدائے بازگشت مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں سنی جاچکی تھی (فُزتَ وَرَبّ الكعبۃ ) ربِ کعبہ کی قسم آپ کامیاب ہوگیے۔
اے خطابت کے شہوار سلام!!
اے قربانیوں کی مسلسل داستاں !! سلام
اے استقلال کے کوہِ گراں !! سلام
-------- *** --------
جمیل الرحمن عباسی