بنت عبد الحق اسلام آباد
رجسٹرڈ ممبر
"ایک پرندہ اڑ گیا طوفاں کے منہ پر تھوک کر" (جرنیل ثالث تصویر اعظم پیکراخلاص حضرت علامہ مسعود الرحمن عثمانی شہید نور اللہ مرقدہ) آج دل بہت اداس،غمگین اورزخمی زخمی اور آنکھیں نمدیده ہیں....آج ان کوشہیدلکھتےہوئےبھی ہاتھ کانپ رہے ہیں.....یقین نہیں آتاکہ کیا یہ حقیقت ہےکہ مولانامسعودالرحمن عثمانی بھی دیگر غلامان صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرح شہید کردیے گئے-یقین ہی نہیں آتا کہ کل تک جنہیں"دامت برکاتہم"لکھاجاتاتھا،آج انکےنام کےساتھ نوراللہ مرقدہ اور رحمہ اللہ علیہ کالاحقہ لگایا جائے گا.....یقین ہی نہیں آتا کہ کل تک جنکے تقریبا روز کے بیانات نیٹ پر لوڈکیےجاتےتھے،اب یہ سلسلہ رک جائےگا.....بعض لوگوں کو ہم صرف نام سےجانتے ہیں....ان کوزیادہ سنابھی نہیں ہوتا،مگراس کےباوجودایک قلبی تعلق،ایک عقیدت کا تعلق ہوجاتا ہے.....اس کی وجہ یہ ہے:"اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا"-جو اللہ کے پیارے ہوتے ہیں،اللہ پاک سب کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردیتا ہے....مولانا عثمانی رحمہ اللہ بھی انہی میں سے ایک تھے-میں نے خود مشکل سے ان کی ایک دو تقاریر ہی سنی ہوں گی مگر اس کے باوجود ان کی عقیدت،عظمت میرےدل میں رچ بس گئی تھی-وجہ یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے قدموں پر مر مٹنے والے تھے....ان کا تعارف،ان کا ٹائٹل ہی یہ تھا"غلام صحابہ،عثمان رضی اللہ عنہ کاعثمانی،صحابہ کانوکر،صحابہ کاسپاہی،صحابہ کا خادم،صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کے پہرےدار...."اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہے؟کتنےخوبصورت ٹائٹل ملے ان کو..... مولانا عثمانی شہیدرحمہ اللہ کی ایک ہی تقریرسنی تھی کہ ان کےجذبۂ ایمانی،بہادری،جرأت،نڈرپن،حق بات سےڈرکوئی نہیں....حق کہنےمیں صداقت،شوق وجذبہ شہادت کو جان کر حیران رہ گئی تھی کہ ایسے لوگ بھی ہیں!ان کالہجہ،ان کا انداز،ان کی دردبھری آواز،گواہی دیتا تھا کہ وہ محض تقریر کا فن نہیں اداکررہے،بلکہ دل سے یہ آواز آتی تھی کہ یہ ان کےدل کادردہے،ان کے الفاظ ترجمان دل ہوتےتھے....وہ ہےناکہ"دل سےجو بات نکلتی ہے،اثر رکھتی ہے"-مولانا شہید کی تقریر سن کر کوئی بھی آرام سے پکار سکتا تھا کہ ہاں واقعی ان کے دل میں درد ہے جو ان کو دنیا کی شان و شوکت سے روکے ہوئے ہے.....ان کے دل میں صحابہ رضی اللہ انھم کی محبت کی جو چنگاری تھی،اس نےلاکھوں دلوں کوبنایا،لاکھوں نوجوانوں کو اس لائن پر لگایا.....-ان کی تقاریرسےجھلکتا تھا کہ اس مرد مجاہد کےدل میں شہادت کاکس قدرشوق بلکہ جنوں بلکہ حسرت ہے-ان کی خواہش اورآرزو یہ تھی کہ مرتےدم تک وہ اسی کام میں لگےرہیں،آخری دم تک،آخری سانس تک وہ صحابہ صحابہ کہتے رہیں،صدیق اکبرکی عظمت کی بات کرتےکرتے وہ چلے جائیں....انہی کے نام پرجان دےدیں.....جب نیت اور جذبہ سچا ہو تو انسان اپنا مقصد پاجاتا ہے....مولاناکاجذبہ واقعتا سچا تھا تبھی تو ایسی خوبصورت شہادت کی موت ملی....میں تو ان کی قسمت اورنصیب پر ششدر رہ گئی...شہادت اور جمعےکےدن کی شہادت!سچ ہےکہ"جیسی تمہاری قربانی،ویسی رب کی مہربانی.....اور"اَنِّیْ لَاۤ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ"- انہوں نےابو بکر رضی اللہ عنہ کے لئےاپنا سب کچھ قربان کردیا تھا.....رب بہترین بدلہ دینے والا ہے....تبھی تو یہ انعام ملا.....ان کی زندگی کے آخری لمحات بھی صحابہ رضی اللہ عنہ کےگن گاتےگزرے....ان کی ساری زندگی کی خواہش پوری ہوئی.....شہادت سےمحض بیس منٹ قبل وہ صحابہ صحابہ کہہ کر آئے تھے.....شہادت کی موت بھی ملی اور ساتھ میں دو خاص اضافی انعامات بھی ملے-ایک توجمعے کے دن کی فضیلت،اس دن تو عوام کو بھی دوزخ سےآزادی کا پروانہ مل جاتاہےپھربات جب خواص کی ہو تو کیابات ہے!!نور علی نور.....دوسرایہ کہ جس دن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی،اسی تاریخ کو صدیق اکبر کے غلام انہی کی محبت پر قربان ہوگئے!کتنا خوبصورت لگ رہا ہے نا لکھا ہوا! "بائیس جمادی الثانی،یوم شہادت،علامہ مسعودالرحمن عثمانی شہید...." اب جب بھی بائیس جمادی الثانی کو صدیق رضی اللہ عنہ پر بات کی جائے گی،تو انہی کے لئے نثار ہونے والے عثمانی کو بھی یاد کیا جائے گا!کیسی خوبصورت تاریخی شہادت ملی...... ان کی ساری زندگی کی محنت،جدوجہداور پھر شہادت پر یہ شعر بےساختہ یاد آیا...لگتاہےشاعر نے اسی موقع کےلئے یہ شعر کہا تھا: "کڑےسفرکاتھکامسافر،تھکاوہ ایسا کہ سوگیاہے - خوداپنی آنکھیں توبندکرلیں، ہرآنکھ لیکن بھگوگیاہے...." وہ تو چلےگئے،اپنامقصدپاگئے،کامیاب ہوگئے،"فوز العظیم"پا گئے،ساری زندگی کی محنت،خود کومٹی میں رول دیا،دنیاکی لذتوں کو خیر آبادکہہ کر بس صحابہ رضی اللہ عنھم کے ہو کر رہ گئے.......آخر میں تھک کرسوئے ایسےکہ کئی دل چھلنی کردیے.....آج مولا نےاپنے پیارے بندےکو سکون آرام کی نیند دےدی جیساکہ کوئی شفیق ماں شفقت سے اپنے بچےکوسلادیتی ہے....کہ ساری زندگی کا تھکا،جان جوکھوں کا کام کرکے آج آرام کرے گا....اے نفس مطمئنہ!آج تیرا امتحان ختم،تواپنے رب سے راضی،تیرا رب تجھ سے راضی....مرے بندو میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا....سَلاَمٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ- وہ اپنی ذات میں انجمن تھے-ایک قیمتی اثاثہ تھے...وہ بجلی کی طرح کڑکے،بادلوں کی طرح گرجےاورلہروں کی طرح دشمن پرلپکے.....انہوں نےہمیشہ بلا خوف باطل قوتوں کو للکارا،نہ کسی سےڈرے،نہ جھکے،نہ کمزور پڑے،ان کی زندگی محنت واستقلال کی ایک طویل داستان ہے......وہ تو ہمت کا پہاڑ تھے....ان لوگوں میں سےتھےجن کےبارےمیں اللہ فرماتاہے:"فَمَا وهَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَااسْتَكَانُوْا،وَاللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ"-اس آیت کی تصویر تھے وہ.....انہوں نےساری زندگی باطل سےجہادکیا اور اس سعادت کو پاگئے"اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ"اور اسکا اجر:"وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِكُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِهٖؕ-وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ"....سبحان اللہ!کیا انعام ہے...کیا اجر ہے...کیا نعمت ہے!!وہ نہ صرف خود حوصلہ نہ ہارتےتھےبلکہ اپنےکارکنان کو بھی بار بار ایک شفیق باپ کی مانند حوصلہ دلاتے رہتے تھے-ان کی تقاریرکا خلاصہ صحابہ رضی اللہ عنھم کی پہرہ داری اور یہ تھا"ہم نے حوصلہ نہیں ہارنا....آخری سانس تک اس کام سے جڑے رہنا ہے....ہمار یہی مشن رہے گا...."اور ہر تقریر میں اپنےاس مخصوص اندازمیں کارکنان کی تربیت فرمایاکرتےتھے...."کرو گے یا نہیں کرو گے؟کرنا ہےکہ نہیں کرنا؟بتاؤ حوصلہ ہارنا ہے؟"یہ ان کا انداز ہوتا تھا جس نے نجانے کتنے لوگوں کی تربیت کی.....- وہ اعظم طارق شہیدکی تصویر تھے...یہ تسلی رہتی تھی کہ اعظم طارق کا ثانی،عثمانی موجود ہےمگر آج تو وہ بھی چلے گئے.... ان کی اہلیہ کے انتقال پر جو ان کا خطاب ہواتھا اس نے ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا تھا کہ کتنی حیرانی کی بات ہے...سوچیے ذرا کہ اہلیہ کا جنازہ سامنےہو،تیس سال کی طویل رفاقت کے بعد جدائی ہو....اس وقت کیاکسی چیز کادھیان رہتا ہے؟غم کےمارےکچھ سوجھتا ہے؟مگر اس غم کےموقع پر بھی مولانا اپنے صدیق کو نہ بھولے تھے....اس وقت بھی ان کی شان پر بات کر رہے تھے.....یہ ہوتی ہے محبت!!سچی محبت!!
بلا شبہ ان کی شہادت بہت بڑا المیہ،بہت بڑا سانحہ ہے....آج بھی اسلام آباد کےسرسبز پہاڑ،ویران اور مرجھائے سے نظر آرہے ہیں.....اسلام آباد کی شاہراؤں،اسلامآباد کے درختوں سے نجانے کیوں ایک اداسی،ایک ویرانی ٹپکتی محسوس ہورہی ہے....ایک گھٹن نےلگتا ہےکہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے....ایک سناٹا،اندھیرامحسوس ہورہا ہے.....وجہ یہ ہےکہ"موت العالم موت العالم"اس موقع پر وہ بات یاد آرہی ہےجب مفتی ارشاد اعظم رحمہ اللہ کا انتقال ہواتھاتو ہمارےحضرت فیروزعبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ اتنا سناٹا سا کیوں محسوس ہورہا ہےکالونی میں؟تو حضرت نےجواب دیا تھا کہ"ایک عالم جب جاتاہےتو ایک عالم ختم ہوجاتاہے،اسی کا اثر محسوس ہوتا ہے،حضرت مجذوب رحمہ اللہ کو ایک دم اندھیرامحسوس ہوا،جب تھانہ بھون پہنچے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا انتقال ہوچکا تھا...." آج بلکل یونہی محسوس ہورہا ہے....یہ غم خصوصا اہل اسلام آباد کے لیے بہت بڑاغم ہے کہ مولانا کےدم سےجو رحمتیں برستی تھیں،آج نہیں....اللہ والوں کی رحمتیں،برکتیں نجانے کتنی دور تک جاتی ہیں....جس سرزمین پر اللہ کے پیارے ہوتے ہیں،وہاں دعائیں تک قبول ہوتی ہیں....جیسا کہ وہ واقعہ آتا ہے نا کہ ننانوے قتل کےمجرم کی توبہ اللہ والوں کی بستی میں قبول ہوئی....تو بھلا اب مولانا شہید کی کمی کیوں نہ محسوس ہو؟ہمارے لئے یہ محرومی ایسی ہے جسکا داغ کبھی نہ مٹےگا،یہ خلا کبھی نہ بھرے گی.....اس نقصان کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی..... "ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کےنہیں نایاب ہیں ہم"- آج تو ان کی جدائی پر صرف ان کے چاہنےوالے ہی نہیں،زمین و آسمان بھی رورہے ہونگے.....کہ حدیث میں آتا ہے:مومن کی موت پر زمین کاوہ ٹکرا روتا ہےجہاں وہ عبادت کرتا تھا،اور آسمان کاوہ دروازہ روتاہےجہاں سے اسکارزق آتاتھا اور اس کے نیک اعمال چڑھتےتھے.....(مفھوم)- غم تو بہت بڑا ہے....زخم کبھی نہ بھرنے والا ہے.....ان القلب لیحزن....و ان العین لتدمع....و انا علی فراقه لمحزونون.....مگر پھر بھی ہم وہی کہتے ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم،ہمارے بڑوں نے،عثمانی شہیدنےسکھایا کہ:
"ولا نقول الا ما یرضی به ربنا تبارک و تعالیٰ....انا للہ و انا الیہ راجعون....."-
مولانا کےذوق شہادت کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یاد آتی تھی....لگتا تھا کہ ان کی روح،جسم میں بےچین پھرک رہی تھی....شہادت کا شوق لگتا تھا ان کےخوں کےقطرے قطرے میں بسا ہوا تھا....ان کوشاید اپنی شہادت نظر آگئی تھی کہ محظ بیس منٹ قبل مقبول شہادت کی دعا دونوں ہاتھ اٹھا کر مانگی تھی- شاید قبولیت کا وقت تھا کہ دعا فلک کو چیڑتی آسمان تک پہنچ گئی یا پھر شاید مزدور کو مزدوری ملنے کاوقت آگیا تھا:"تیرے ذوق شہادت کا فسانہ...نہ بھولے گا قیمت تک زمانہ...."
مگر یہ بات ضرور ہے غمگین قلوب کےلیےتسلی کہ وہ زندہ ہیں،شہید مرتےنہیں بلکہ ابدی حیات پاجاتے ہیں.....قرآن کریم میں ہے کہ(مفہوم)شہیدکو مردہ نہ سمجھو اور نہ کہو،وہ زندہ ہیں،ان کو رزق بھی ملتا ہے،جو رب انہیں عطا کرتا ہے،اس سےخوش ہوتے ہیں،مگر تمہیں شعور نہیں ہوتا....وہ شاداں و فرحاں رہتے ہیں-(دو آیتوں کا خلاصہ)-ہم شہداء پر روتے نہیں...بھلا جو دنیا کی مشکلات سے نجات پا کر ابدی حیات پا گیا،اس پر غم کیسا؟ - "زندہ ہوتےہیں جومرتے ہیں حق کے نام پر- اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کردیا"
وہ شہادت کے اس عظیم مرتبے پر فائز ہوئے جس کی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان نبوت سے تمنا فرمائی کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں،پھر زندہ ہوؤں،پھر قتل کیا جاؤں....پھر زندہ ہوؤں....(مفھوم)- وہ راہ حق کے مسافر تھے....مشقتیں برداشت کرتے کرتے....سہتے سہتے اپنی اصل منزل تلک پہنچ گئے....
"جانے والے تو چلے جاتے ہیں
اور رہ جاتی ہیں فقط یادیں انکی" بس اسی پر اکتفا کرتی ہوں...سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں،کیا نہ لکھوں.....اس عظیم ہستی کی مشک بار زندگی پر کچھ لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے.....ان کی زندگی بھی ایسی خوبصورت اورموت بھی ایسی کہ رشک کو بھی رشک آئے!بلکہ ان پر تو ایک جملہ لکھنا بھی میں اپنی سعادت سمجھتی ہوں،جوکسی اور پر ہی نہیں،بلکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ،امی عائشہ رضی اللہ عنہاکے دوپٹے کی عزت کی خاطر منوں مٹی تلے دب گئے..... مجھے لکھنا نہیں آتا....بس ٹوٹے پھوٹے جملے لکھ دیے ہیں کہ اللہ پاک شاید اپنےاسی پیارے بندے پر لکھنے پر ہی میری مغفرت کا فیصلہ فرمادے.... بس دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی جدوجہد، شہادت قبول فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،اپنی زیارت سے مشرف فرمائے اور ان کی مرقدمبارک کو نور،رحمتوں،اور جنت کی ٹھنڈی ہواؤں سے بھر دے..... آخر میں وہ شعر جو اکثر وہ بیان کے آخر میں پڑھا کرتے تھے..... "حق بات پے کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری- اظہار تو کر ہی جائے گا جو ٹپکے گا لہو میرا
بلا شبہ ان کی شہادت بہت بڑا المیہ،بہت بڑا سانحہ ہے....آج بھی اسلام آباد کےسرسبز پہاڑ،ویران اور مرجھائے سے نظر آرہے ہیں.....اسلام آباد کی شاہراؤں،اسلامآباد کے درختوں سے نجانے کیوں ایک اداسی،ایک ویرانی ٹپکتی محسوس ہورہی ہے....ایک گھٹن نےلگتا ہےکہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے....ایک سناٹا،اندھیرامحسوس ہورہا ہے.....وجہ یہ ہےکہ"موت العالم موت العالم"اس موقع پر وہ بات یاد آرہی ہےجب مفتی ارشاد اعظم رحمہ اللہ کا انتقال ہواتھاتو ہمارےحضرت فیروزعبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم سے لوگوں نے پوچھا تھا کہ اتنا سناٹا سا کیوں محسوس ہورہا ہےکالونی میں؟تو حضرت نےجواب دیا تھا کہ"ایک عالم جب جاتاہےتو ایک عالم ختم ہوجاتاہے،اسی کا اثر محسوس ہوتا ہے،حضرت مجذوب رحمہ اللہ کو ایک دم اندھیرامحسوس ہوا،جب تھانہ بھون پہنچے تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا انتقال ہوچکا تھا...." آج بلکل یونہی محسوس ہورہا ہے....یہ غم خصوصا اہل اسلام آباد کے لیے بہت بڑاغم ہے کہ مولانا کےدم سےجو رحمتیں برستی تھیں،آج نہیں....اللہ والوں کی رحمتیں،برکتیں نجانے کتنی دور تک جاتی ہیں....جس سرزمین پر اللہ کے پیارے ہوتے ہیں،وہاں دعائیں تک قبول ہوتی ہیں....جیسا کہ وہ واقعہ آتا ہے نا کہ ننانوے قتل کےمجرم کی توبہ اللہ والوں کی بستی میں قبول ہوئی....تو بھلا اب مولانا شہید کی کمی کیوں نہ محسوس ہو؟ہمارے لئے یہ محرومی ایسی ہے جسکا داغ کبھی نہ مٹےگا،یہ خلا کبھی نہ بھرے گی.....اس نقصان کی تلافی کبھی نہ ہوسکے گی..... "ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کےنہیں نایاب ہیں ہم"- آج تو ان کی جدائی پر صرف ان کے چاہنےوالے ہی نہیں،زمین و آسمان بھی رورہے ہونگے.....کہ حدیث میں آتا ہے:مومن کی موت پر زمین کاوہ ٹکرا روتا ہےجہاں وہ عبادت کرتا تھا،اور آسمان کاوہ دروازہ روتاہےجہاں سے اسکارزق آتاتھا اور اس کے نیک اعمال چڑھتےتھے.....(مفھوم)- غم تو بہت بڑا ہے....زخم کبھی نہ بھرنے والا ہے.....ان القلب لیحزن....و ان العین لتدمع....و انا علی فراقه لمحزونون.....مگر پھر بھی ہم وہی کہتے ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم،ہمارے بڑوں نے،عثمانی شہیدنےسکھایا کہ:
"ولا نقول الا ما یرضی به ربنا تبارک و تعالیٰ....انا للہ و انا الیہ راجعون....."-
مولانا کےذوق شہادت کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یاد آتی تھی....لگتا تھا کہ ان کی روح،جسم میں بےچین پھرک رہی تھی....شہادت کا شوق لگتا تھا ان کےخوں کےقطرے قطرے میں بسا ہوا تھا....ان کوشاید اپنی شہادت نظر آگئی تھی کہ محظ بیس منٹ قبل مقبول شہادت کی دعا دونوں ہاتھ اٹھا کر مانگی تھی- شاید قبولیت کا وقت تھا کہ دعا فلک کو چیڑتی آسمان تک پہنچ گئی یا پھر شاید مزدور کو مزدوری ملنے کاوقت آگیا تھا:"تیرے ذوق شہادت کا فسانہ...نہ بھولے گا قیمت تک زمانہ...."
مگر یہ بات ضرور ہے غمگین قلوب کےلیےتسلی کہ وہ زندہ ہیں،شہید مرتےنہیں بلکہ ابدی حیات پاجاتے ہیں.....قرآن کریم میں ہے کہ(مفہوم)شہیدکو مردہ نہ سمجھو اور نہ کہو،وہ زندہ ہیں،ان کو رزق بھی ملتا ہے،جو رب انہیں عطا کرتا ہے،اس سےخوش ہوتے ہیں،مگر تمہیں شعور نہیں ہوتا....وہ شاداں و فرحاں رہتے ہیں-(دو آیتوں کا خلاصہ)-ہم شہداء پر روتے نہیں...بھلا جو دنیا کی مشکلات سے نجات پا کر ابدی حیات پا گیا،اس پر غم کیسا؟ - "زندہ ہوتےہیں جومرتے ہیں حق کے نام پر- اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کردیا"
وہ شہادت کے اس عظیم مرتبے پر فائز ہوئے جس کی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان نبوت سے تمنا فرمائی کہ میں اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں،پھر زندہ ہوؤں،پھر قتل کیا جاؤں....پھر زندہ ہوؤں....(مفھوم)- وہ راہ حق کے مسافر تھے....مشقتیں برداشت کرتے کرتے....سہتے سہتے اپنی اصل منزل تلک پہنچ گئے....
"جانے والے تو چلے جاتے ہیں
اور رہ جاتی ہیں فقط یادیں انکی" بس اسی پر اکتفا کرتی ہوں...سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں،کیا نہ لکھوں.....اس عظیم ہستی کی مشک بار زندگی پر کچھ لکھنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے.....ان کی زندگی بھی ایسی خوبصورت اورموت بھی ایسی کہ رشک کو بھی رشک آئے!بلکہ ان پر تو ایک جملہ لکھنا بھی میں اپنی سعادت سمجھتی ہوں،جوکسی اور پر ہی نہیں،بلکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ،امی عائشہ رضی اللہ عنہاکے دوپٹے کی عزت کی خاطر منوں مٹی تلے دب گئے..... مجھے لکھنا نہیں آتا....بس ٹوٹے پھوٹے جملے لکھ دیے ہیں کہ اللہ پاک شاید اپنےاسی پیارے بندے پر لکھنے پر ہی میری مغفرت کا فیصلہ فرمادے.... بس دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی جدوجہد، شہادت قبول فرمائے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے،اپنی زیارت سے مشرف فرمائے اور ان کی مرقدمبارک کو نور،رحمتوں،اور جنت کی ٹھنڈی ہواؤں سے بھر دے..... آخر میں وہ شعر جو اکثر وہ بیان کے آخر میں پڑھا کرتے تھے..... "حق بات پے کٹتی ہے تو کٹ جائے زباں میری- اظہار تو کر ہی جائے گا جو ٹپکے گا لہو میرا