بنت عبد الحق اسلام آباد
رجسٹرڈ ممبر
"دکھاؤ....کیا دیکھ رہے ہو....." وہ چودہ سالہ محب اللہ کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے بولی- "مما!لائیو مکہ ہے....."وہ آگے سے کچھ نہیں بولی-بس خاموشی سے موبائل سکرین پر دیکھتی رہی پھر اس کی آنکھیں حسب عادت دھندلا گئیں-کعبه دیکھتے دیکھتے آنسو چپکے سے پھسل کر اس کی گالوں پر آگئے تھے-وہ اپنے نام عارفہ کی طرح اللہ سے معرفت رکھنے والی،محبت رکھنے والی تھی-ہم اللہ کو جانتے ہیں وہ اللہ کو پہچانتی تھی-اس کی زندگی،رگ،خوں کے قطرے قطرے،ہڈیوں کےگودے میں اللہ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی-جب وہ اللہ کا نام لیتی تھی تو پتا چلتا تھا کہ اس کا دل عشق الہی سے چھلنی و زخمی ہے-اڑتیس سال عمر تھی،ابھی تو چالیسویں میں بھی نہ لگی تھی مگر اصل کمال تو جوانی میں ہے نا انابت الی اللہ کا......،گرمی میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ الله سے محبت کرنے والی دعا کی مصداق تھی.....اس کا حال یہ تھا: "جسم و جان، قلب و نظر، فہم و ذکاء ہے الله - سینے میں دل کے دھڑکنے کی صدا ہے الله " اس کے شوہر شمائل نے اسے روتا دیکھ کر بیٹے سے پوچھا- "کیوں رورہی ہیں آپ کی مما؟" "بابا میں نے مما کولائیو مکہ لگا کر دیا ہے...." "ہاں مکہ دیکھ کر یہ کسی اور ہی عالم میں کھو جاتی ہیں ...."شمائل نے عقیدت سے اسے دیکھا-جب وہ ذرا نارمل ہوئی تو شمائل نے پوچھا- "عارفہ عمرہ کرنا ہے تم نے ؟" "مم....میں....عم.....عمرہ...."یکدم اس کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی- "ہاں"شمائل نے یقین دلایا- "نن....نہیں....شمائل....مجھ سےتو نظر ہی نہیں اٹھائی جائے گی اس کے در پر....وہ تو میرے رب کی تجلی ہے....وہاں تو پاک لوگ جاتے ہیں....مجھ جیسے ناپاک تو نہیں...." "مما آپ سے زیادہ پاک کون ہوگا-"یہ تیرہ سالہ محب الرحمن تھا- "بب...بیٹا!اتنی بڑی بات کیسے کہہ دی تم نے.....میں نے تو ساری زندگی اس کی نافرمانی ہی نافرمانی کی ہے....کوئی عمل لائق نہیں....دل پھٹ جائے گامیرا تو....چیخیں نکل جائیں گی...."وہ کانپتے ہوئے بولی-ساتھ ہی اس کے نورانی چہرے پر ساون کی برسات شروع ہوگئی تھی- "مما!آپ کے اندر اللہ کی اتنی محبت کیسے آئی.....مما آپ کے لہجے سے جھلکتی ہے،چہرے سے ٹپکتی ہے،دل کو پگھلا دیتی ہے....."محب اللہ جذباتی ہو کر بولا- "بیٹا تو کیا اس سے محبت نہیں کرنی چائیے.....میں تو اس کی محبت کا حق بھی ادا نہیں کرسکتی...قران بھر دیا ہے اس نے ان اللہ رؤوف بالعباد،ان ربی رحیم ودود، ان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم.....وہ تو اتنا رحیم اور میں کیسی ہوں....اس نے کیا کچھ نہیں دیا....بھلا بتاؤ بلا مانگے جھولیاں نہیں بھر دیں.....احسانات حبات انعامات نہیں کیے....ت ....تو...."جذبات اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے...پھر وہ اٹھی اور دوپٹے سے آنسو پونچھتے کمرے میں چلی گئی-محب اللہ کی زبان سے یہ اشعار نکلے- "محبت چیز ایسی ہے- چھپائے چھپ نہیں سکتی - یہ آنکھوں میں چمکتی ہے - یہ چہروں پر دمکتی ہے- یہ لہجوں میں جھلکتی ہے- دلوں تک کو گھلاتی ہے- لہو ایندھن بناتی ہے" "بابا!مما قران پڑھتے ہوئے اتنا کیوں روتی ہیں، اس دن میں نے دیکھا ان اللہ غفور الرحیم پڑھتےہوۓ روۓ جارہی تھیں،ہم بھی تو سو بار یہ آیت پڑھتے ہیں پھر ہماری یہ کیفیت کیوں نہیں ہوتی....اللہ کا نام لیتے ہی مما رونے لگ جاتی ہیں...."سولہ سالہ نافلہ رشک بھرےلہجے میں بولی- "بیٹا اس کے لئے سوز سے بھرا دل شرط ہے جو سب کو نہیں مل جاتا.......اللہ آزماتا ہے کہ یہ میری محبت میں سچا ہے کہ لفاظی ہے محظ...اس خاتون نے بہت کچھ چھوڑا ہے اللہ کے لئے-آپ لوگ شکر کرو کہ ایسا ماں ملی ہے....اس سے سیکھو کچھ.....اب یہ کندن بن گئی ہے ....وہ ہے نا"کہ سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد،رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد".....میں نے اس میں بہت خاص عشق دیکھا ہے اللہ کا شادی کے سترہ سالوں میں...." شمائل نے محبت بھرے لہجے میں کہا- "مما کے کیا مجاہدات ہیں بابا ...."محب الرحمن نےاشتیاق بھرے لہجے میں پوچھا- "خود پوچھنا ان سے.....ایسے ایسے مجاہدے کیے ہیں اس نے کہ کلیجہ منہ کو آگیا....سوچو ذرا اپنی من پسند چیزیں چھوڑنا کوئی آسان چیز ہے؟اس خاتوں نے سب سہا ہے ....تبھی تو ایسا درد ایسی محبت اسے ملی ہے....جہاں بھی کہیں اللہ کا پیارا دیکھو تو سمجھ لینا کہ اس نے کچھ دیا ہے اللہ کو....دیکھو بیٹا انسان اپنے چھوٹوں سے بھی بہت کچھ لیتا ہے-عارفہ کی زندگی نے سکھایا ہے کہ مجاہدہ نفس کے بغیر انسان کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا لہٰذا نفس کی مخالفت عبادت کی تمام قسموں کی بنیاد اور مجاہدے کے تمام درجوں کا کمال ہے۔ بندہ اس مقام تک رسائی کے بغیر راہ حق کو نہیں پا سکتا-" "صحیح کہہ رہے ہیں بابا-"تینوں بچوں نے تایئد میں سر ہلایا-پھر مغرب کی آذان ہوگئی اور سب اٹھ گئے- ***** "مما!ایک بات بتائیں گی....."تینوں بچے شام کو عارفہ کے پاس بیٹھے تھے-اس کے گہرے سانولے رنگ پر گویا اسم ذات چمک رہا تھا- "مما!آپ نے اللہ کے لیا کیا دیا ہے.....آپ ہمیں کیوں نہیں بتاتیں.....ترغیب کے لئے بتایا کریں نا....."محب اللہ نےبات شروع کی- "بیٹا کچھ بھی نہیں دیا میں نے اس کے لیے...یہ تو قران میں ہے ہی وما قدرو اللہ حق قدرہ....تو میں نے کہاں سے دےدیا اس کے لئے کچھ ....." "مما پھر بھی تھوڑا سا بتادیں...."بچوں کے اصرار پر اس نے بتانا شروع کیا- "بیٹا میں تفصیل سے نہیں،مگر اتنا بتا سکتی ہوں کالج کےدوران ایک لڑکا معید میرا دوست بن گیا تھا....میں نے معید کو سب کچھ سمجھ لیا تھا.....میں نے اپنی تمام تر محبت اس پر لٹائی...جب تک کہ میں اس سےبات نہ کر لیتی تھی مجھے نیند نہیں آتی تھی....ایک دن میری امی مجھے ایک تفسیر کی کلاس میں لے گئیں-وہاں ایک آیت"وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-"نے میری زندگی بدل دی...میں تو کانپ کر رہ گئی کہ معید کو تو میں نے سب سے بڑا درجہ دے دیا ہے...میں نے جائزہ لیا کہ کیا چیز میری زندگی میں غلط ہے جو مجھے اللہ کےلئے چھوڑنی ہوگی.....میرا قدم معید کو چھوڑنے کا تھا...میں سب کچھ چھوڑ سکتی تھی مگر معید کو چھوڑنے کا سوچنا مجھےموت لگتی تھی.......یہ بہت لمبی کہانی ہے،کافی ماہ میں تذبذب کا شکار رہی،بیٹا پھر ایک بار مجھے انہی تفسیر والی باجی نے سمجھایا کہ جب ہمارے سامنے دو منزلیں پیش کردی گئی ہیں تو ہم خود اپنے لئے بہتر مَنزل کا اِنتخاب کر سکتے ہیں.کچھ فیصلے مقدر پر چھوڑ دینے میں ہی بہتری ہے لہٰذا ہمیں چائیے اللہ سے زیادہ کسی بھی اِنسان کو قریب نہ کریں.ہو سکتا ہے ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو۔اس رات میں روتی رہی اور پھر اپنی زندگی کا سب سے بڑا ،تکلیف دہ اور دھماکہ خیز فیصلہ کیا......." اس کے چہرے کا رنگ شدت جذبات سے سرخ ہوگیا تھا- "پھر میں نے ایک ایسا فیصلہ کیا کہ میرے دل پر زلزلہ طاری رہتا.....بیٹا معید سے تعلق چھوڑدیا...مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں نے معید کو چھوڑ دیا ہے....کتنے ہی دن میں بے یقینی کی حالت میں رہی....میں اللہ سے بہت روتی تھی کہ اپنی محبوب چیز آپ کے لئے قربان کی ہے.....میں جب بھی کالج جاتی تھی تو وہ سامنے آجاتا تھا....میں نےکالج چھوڑدیا....پردہ شروع کردیا اور ساتھ امی ابو کی مخالفت بھی برداشت کی.....مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں انگاروں پر لوٹ رہی ہوں مگر بیٹا پھر مجھے حلاوت ایمانی مل گئی....مجھے قران دعا میں اتنا مزہ آتا کہ وہ میں بیان نہیں کرسکتی-جب میں سجدہ کرتی تو میرے آنسو روکے نہیں رکتے تھے...میں نے اپنی دوستی،محبت،عشق اللہ سے کرلی جسے بقا ہے...باقی سب کو فنا ہے.....بیٹا میں کوئی دعوی نہیں کرتی مگر اللہ کے لیے میں نے اپنی من پسند چیز چھوڑی.....،میں نے کیا چھوڑی اس نے ہی اپنی نعمتیں مجھ گندی پر لٹائیں،سب اس کا کرم ہے کہ ہر ٹھوکر پر مجھے سنبھالا،ہر تکلیف میں میری مدد کی....ہر بار مجھے حوصلہ دیا....اسی کا کرم و احسان ہے کہ مجھے گمراہی ضلالت سے نکالا،میرے ضمیر کو زندہ کیا،اس کا کرم نہ ہوتا تو آج میں گناہوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہوں...."اس کی آواز لرزنے لگی تھی-اللہ سے شدت محبت اس کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی- "مما!آپ نے کیسے چھوڑدیا اس لڑکے کو،آپ کو مشکل نہیں لگا...."نافلہ نے سوال داغا- "لگا تھا بیٹا...بہت زیادہ....مگر بیٹا دل کا خوں بہا صرف رب دیکھتا ہے...وہی اس کا انعام دیتا ہے....بہت قدردان ہے وہ....بیٹا میں نے تم دونوں کا نام بھی ایسا رکھا ہے کہ میرے بیٹے اللہ سے محبت کریں....نام کا اثر ہو....اللہ سے محبت ہی ہر فلاح کی کنجی ہے....اللہ سے محبت کرو گے تو ہی سکوں ملے گا ...غیر للہ میں سکوں نہیں ہے بیٹا....غیر اللہ سے سکو ن حاصل کرو گے تو وہی چیز پھر ہلاکت کاسبب بن جائے گی...."وہ سادہ سادہ محبت بھرے لہجے میں سمجھا رہی تھی،اس کی نرم آواز مثل تیرتینوں کے دل پر لگ رہی تھی-بچے گم صم عارفہ کو دیکھ رہے تھے جس کی گالوں پر موتی چمک رہے تھے-اس کی آواز پھر سے گونج رہی تھی- "ہر مشکل امتحان نہیں ہوتی کچھ مشکلیں انعام بھی ہوتی ہیں،اﷲکی پہچان انسان کا شرف ہے جسے وہ حاصل ہو گئی اُس نے زندگی کا مقصد پہچان لیا،الله سے محبت ایک ایسی حقیقت ہے جو کوئی کتاب نہیں سکا سکتی،اس کا آغاز وہی دو آنسو ہیں جو سرگوشی میں آپ نے بہائے ہوں-" آنسو کے بوجھ سے اس کا دل پھٹ رہا تھا-آج وہ پھر ماضی میں چلی گئی تھی -ان آنسوؤں کا لطف وہی جانتا ہے جس نے دل کا خوں کر کے تنہائی میں اپنے خالق کے سامنے بہائے ہوں.... ***** آج عارفہ صبح سے بہت خوش تھی-کھلکھلاتا نورانی چہرہ.....بچے جب پوچھتے تو وہ مسکرا کر کہتی- "بس بیٹا میرا تو اللہ سے ملنے کا کتنا دل کر رہا ہے....افففف.....کیسے اس کا وجہ کریم ہوگا....آج ہی آیت پڑھ رہی تھی کہ"فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا"،میرادل خوشی سے بھر گیا-میں تو دعا کرتی ہوں کہ اے اللہ ہمارے گناہوں کے سبب ہمیں اپنی ملاقات کی لذت سے محروم نہ کردینا....."یکدم وہ سہم سی گئی تھی- "لیکن مجھے قبر کی منزل سے بھی بہت ڈر لگتا ہے.....اففف منوں تلے مٹی میں تن و تنہا ہمارا کیا حل ہوگا.....اگر اللہ راضی نہ ہوا تو.....اگر وہ خوش ہے تو موت تو تحفہ ہے.....اور اگر ناراض ہو تو......اففف.....بندہ سوچے بھی تو کیسے......ساری زندگی کے گناہوں کے علاوہ ہے کیا ہمارے پاس ...." وہ جذبات کی رو میں بہہ رہی تھی- "عارفہ!تمہیں کیا ہوگیا ہے....تم تو اللہ سے اچھی امید رکھو نا-"شمائل نے اسے سمجھایا- "ہاں ہاں وہ تو مجھے اپنے رب پر یقین ہے مگر میرے اعمال اسقابل ہیں کیا....مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ اس کے عقاب و عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤں.....بیٹا میں جہنم کا سوچوں نا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں....."وہ روتے ہوئے بولی- "مما!دوزخ گناہگاروں اور کافروں کے لئے ہے ...."نافلہ نے کہا- "بیٹا کس کو معلوم ہے کہ خاتمہ کس حال پر ہو.....بس اللہ نے ہمیشہ مہربانی کی ہے ...اب بھی فضل کرے گا....لیکن میں تو مانگتی ہو نک اللہ موت کے وقت کلمہ سے میری زبان کو مطیب کرنا.....ورنہ اگر دوزخ ہوئی تو پھر ہمیشہ کے لئے الله کے قرب و زیارت سے دوری ......"وہ بلکل ہی عاجزی انکساری میں اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکی تھی-ہمیشہ کی طرح وہ اٹھی اور پھر مصلی پر جا کر اپنے رب سے باتیں کرنے لگی- ****** شمائل کی کمپنی اسے اور اس کے گھر والوں کو عمرہ کرا رہی تھی-عمرے کی تاریخ نوماہ بعد تھی-عارفہ نے جب سے یہ سنا تھا وہ تو کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی تھی-ہر وقت جب بہ اللہ کا نام لیتی تو بچوں کی طرح بلکل بلک کر رونے لگتی تھی- "رب مجھے بلالے اپنے در پر....ورنہ مجھے تو ڈر ہی لگتا ہے کہ جا پاؤں گی یا دھتکار دی جاؤں گی..."وہ ہر وقت کعبه کو سوچتی رہتی تھی- اسی دوران ایک دن وہ کام کرتے کرتے لڑکھڑا کر گر پڑی تھی-شمائل گھر پر تھا،وہ فورا عارفہ کو ہسپتال لے کر گیا-ہسپتال میں اس کے ٹیسٹ ہوئے تو یہ خبر تو گھر والوں پر بجلی بن کر گری مگر وہ پرسکون مسکراتی رہی تھی-رپورٹ کے مطابق اسےجگر کا کینسر تھا -عارفہ مطمین تھی-جب شمائل نے اسے علاج کے لیے بات کی تو وہ یقین سے بھرپورلہجے میں بولی- "شمائل!آپ پریشان مت ہوں... اللہ ہے نا...شفا لکھی ہوئی تو دے گا باقی میں اس کے فیصلے پر دل و جان سے راضی ہوں-بلکہ میں اس نے جو فیصلہ کیا خوش ہوں....میں تو یہ مانگتی ہوں کہ میرا رب جو مرے بارے میں پسند کرتا ہے وہ ہو،اور جو میرے لئے ناپسند کرتا ہے،اس سے بچالے " "مگر عارفہ علاج کا تو دین میں حکم ہے...."شمائل ے اس کے نحیف سے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ر- "وہ تو ہے...تو ٹھیک ہے آپ کرالیں....ورنہ میں تو اس کی رضا مانگتی ہوں قضاء کے بعد-" "تمہارا تو الله سے ایسا تعلق ہے کہ تم اس کی ملاقات کو ہی پسند کرو گی...مگر علاج تو میں زبردستی کراؤں گا....." "اور اگر ان سے ملاقات کا وقت آگیا ہو...."وہ چمکتی آنکھوں سے کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ نافلہ نے جلدی سے اس کے منہ پر تڑپ کر ہاتھ رکھ دیا- "مما آپ کچھ نہیں بولیں ...الله آپ کو جلد سے جلد شفاء دے....-"وہ چپ تو ہوگئی مگر اس کی چمکتی آنکھیں دمکتا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ کچھ خاص سوچ رہی ہے....***** عارفہ نے علاج میں آٹھ ماہ گزارے-ان دونوں میں اس کا الله سے قرب کچھ زیادہ ہی خاص و ناز والا ہوگیا تھا-اب وہ ہر وقت ایمان پر خاتمہ اور اللہ کی رضا مانگتی رہتی-تکلیف کے باوجود اس نے کبھی تکلیف کا اظہار نہیں کیا،اس کو تکلیف میں دیکھ کر شمائل کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے مگر جس کے دل میں رب ہو تو اس کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر وہ کئی صحت مندوں سے زیادہ خوش نصیب ہوتے ہیں....وہ صحت بھی مانگتی تھی مگر زیادہ تڑپ کر وہ اللہ کی خوشی مانگتی تھی- "اے اللہ سرآی زندگی تجھ کو ناراض کیا ہے...مجھ میں ہمت نہیں تجھے منہ دکھانے کی.....اپنی رحمت کا ایک قطرہ ہی دے دے تاکہ میری بگڑی بن جائے،اے الله جو مجھ پر یہ تکلیف آئی ہے،اسے درجات کی بلندی اور گناہوں کا کفارہ بنادے........."اس طرح محبت سے وہ دعائیں کرتی رہتی تھی- پہلے جیسے وہ قران پڑھتی تھی اب اس کے انداز سے کمزوری ٹپکنے لگتی تھی-سانس توڑ توڑ کر وہ مشکل سے پڑھ رہی ہوتی -اس حالت میں تو بندہ اللہ سے بے زار سا ہوجاتا ہے مگر اسکی محبت الله سے بڑھتی ہی جارہی تھی.....-علاج ہوتا رہا مگر اس کی بے چین روح مزید صبر نہیں کرسکتی تھی رب سے ملاقات کے لئے.....- مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی -وہ جمعرات کی رات تھی جب وہ بستر پرقران پڑھ رہی تھی-ابھی آیت" آولئک یرجون رحمت اللہ" پر ہی پہنچی تھی کہ اس کا سانس اکھڑنے لگا -قران کو چوم کر اس نے گلوگیر لہجےمیں بچوں کو آخری نصیحت کی- "بیٹا!اللہ سے محبت کرو....اس اکے بغیر مزہ نہیں زندگی کا ...ہر تکلیف راحت ہے....خدا کی قسم جسم میں تکلیف ہوگی مگر دل پرسکون ہوگا.....اور دل کا سکوں ہی سب کچھ ہے ....دیکھو گناہ نہ کرنا.....صرف اللہ کو یاد رکھنا:" نہ عیش نہ دکھ درد نہ آرام رہے گا-آخر وہی اللہ کا اک نام رہے گا"...."اگلے لمحے وہ غشی میں رہی-ٹھیک رات کو گیارہ بجے اس نے کلمہ پڑھتے ہوئے ایسے جان دے دی کہ گھر والے دیکھتے ہی رہے....الله نے اس کے ساتھبہت نرمی اور مبت کا معاملہ کیا تھا....-ٹھیک اگلے دن جمعے کے بعد شمائل کی کمپنی والوں کا عمرے کا سفر تھا-شمائل نے تو معذرت کرلی تھی - ****** عارفہ کا معطر جسم بستر پر رکھا ہوا تھا....عجیب اطمینان اس بات کی دلیل تھا کہ الله اس سے کتنا خوش ہے.....-تینوں بچے باپ کے ساتھ اس کے سامنے گم صم کھڑے تھے.....تبھی شمائل کی کانپتی روتی آواز ابھری.... "بہت اللہ کو اس عورت سے پیار تھا.....جس کا ثبوت اس کے قول و فعل تھے......اس نے کر کے دکھایا کہ کیسے الله کے لیے زندگی گزارنی ہے.....دیکھو سارا سامان یہیں رہ جاتا ہے....اس کے ساتھ گیا ہے تو الله کی محبت گئی ہے.....دیکھو کل سب اللہ کے گھر کی طرف جایئں گے اور یہ اللہ کے پاس چلی گئی.....کعبے کے طواف کے بجائے اللہ نے اس کے ساتھ کچھ خاص کیا....اپنے سے ملاقات کے لیے بلالیا.....کعبے کے لئے تڑپتی تھی....کعبے کے مالک سے ملنے چلی گئی..." بچوں کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گے تھا-تبھی محب اللہ بولا- "بابا!مما نے قربانیاں بھی تو کتنی دی تھیں...اس کا انعام بھی تو دینا تھا نا اللہ نے کیونکہ وہ اچھا بدلہ دیتا ہے....بابا مما یہ شعر کتنا سناتی تھیں "سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد-رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد" ........" "ہاں بیٹا اس ے خود کو بلکل ہی ا پنی ذات میں فنا کردیا تھا....میں تو دیکھ کر حیران ہوجاتا تھا کہ کیسے اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل کمتر اور گناہگار سمجھتی ہے....اللہ کو جن سےپیار محبت ہوتی ہے وہ بہت....جلدی چلے جاتے ہیں .....بہت جلدی....."شمائل کی زبان مرحومہ کے لئے رطب اللسان تھی- محب الله سوچ رہا تھا کہ اس کی مما سے واقع اللہ بہت پیار کرتے ہیں....کاش...ہم بھی اس کے پیارے بندے بن جایئں....اےکاش.....اس کو ہم سے بھی پیار ہوجاۓ......تبھی تو زندگی سنورے گی ورنہ زندگی پھیکی ہے.....اللہ کے عاشقوں میں ہم بھی شامل ہوجائیں مگر اس کے لئے شرط ہے کہ" والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا وإن الله لمع المحسنين".....ہے تو کڑوا گھونٹ مگر انعام نہ ختم ہونے والا ہے....جو قدردان مہربان رحمن رب کی طرف سے ملتا ہے....*****