(مفتـی ) کــــــــــون...... ؟
استاد محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان میں مفتی کورس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا،جب ہم دونوں بھائیوں نے درس نظامی مکمل کیا تو ہمارے والد صاحب نے فقہ میں مہارت حاصل کرنے اور فتوی دینے کے لئے ہمیں ایک نصاب بنا کر پڑھایا اور اس کے بعد دوسری شرط یہ رکھی کہ اس نصاب کو پڑھنے کے بعد آپ نے بیس تیس سال کسی ماہر مفتی کی نگرانی میں مشق کرنی ہے اس مشق کے بعد بڑے مشورہ کریں گے اگر ان کو تسلی ہوئی تو آپ کو "مفتی" لقب مل سکتا ہے ورنہ نہیں۔
آج بھی دارالعلوم کراچی میں کئی سفید ریش علماء کو مفتی لکھنے کی اجازت تاحال نہیں مل سکی۔گویا نصاب کے ساتھ "مفتی" بننے کے لئے دو چیزیں لازم تھیں(1) کم ازکم بیس سال تربیت و تمرین۔(2) بڑوں کا اعتماد۔
استاد محترم نے شکوہ کیا ہے آج کل تو تخصص کی کلاس میں داخلہ لیتے ہی بعض طالب علم اپنے نام کے ساتھ " مفتی" لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے اب ہر جگہ مفتی ملتے ہیں۔ فرمایا کہ حضرت مفتی شفیع رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ دارالعلوم دیوبند میں جب کوئ سائل مسئلہ پوچھنے آتا تو ہر مفتی یہ کہ کر اس کو دوسرے کے پاس بھیج دیتے کہ میں چھوٹا ہوں اس عالم سے پوچھیئے وہ مجھ سے بڑے ہیں ،آج کل ہر کوئی خود کو بڑا کہتا ہے۔اصل میں المیہ یہ ہے کہ صرف یک سالہ و دو سالہ نصاب رہ گیا، تربیت کی شرط کو حذف کر دیا گیا اور بلا کسی امتحان و اطمینان کے، ہر کوئی خود کو ہی مفتی لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ مفتی اللہ تعالی کا خلیفہ ہوتا ہے اس کی مہر سے عام آدمی کے لئے کوئی چیز حرام بھی بن جاتی ہے اور حلال بھی۔یاد رکھئے! اہلیت کے بغیر جب کوئی کسی منصب و عہدہ کو سنبھالتا ہے تو اداروں کے ادارے بلکہ معاشرے برباد ہو جاتے ہیں۔ مفتی کوئی عہدہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے،حتی المقدور خود کو بلا ضرورت اس ذمہ داری سے بچانا چاہیے۔
آخری بار ترمیم: