السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

ایک ماہ کی مدت اصلاح نفس کیلئے کافی نہیں

مجلس علمی آفیشل 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر
ایک ماہ کی مدت اصلاح نفس کیلئے کافی نہیں


ایک مولوی صاحب بعد تحصیل علوم درسی رام پور سے تشریف لائے اور حضرت والا کو ایک پرچہ دیا اسے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں اور آپ نے کبھی مجھ سے خط و کتابت بھی کی ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ رام پور سے آیا ہوں اور خط و کتابت تو کبھی نہیں کی۔ اس پر فرمایا اب آپ کا کیا ارادہ ہے، کچھ قیام ہوگا؟ اس پر ان صاحب نے کہا اصلاح نفس کیلئے حاضر ہوا ہوں اور ایک ماہ قیام کروں گا۔ حضرت والا نے فرمایا کہ ایک ماہ تو اصلاح کیلئے کافی نہیں ہو سکتا۔ افسوس علوم درسیہ کیلئے لوگ دس دس سال خرچ کرتے ہیں اور اس سے کم مدت کو کافی نہیں سمجھتے بھلا اصلاح نفس کیلئے ایک مہینہ کیوں کر کافی ہوسکتا ہے انصاف تو کیجئے حالانکہ درسیات پڑھنے سے خود بھی مقصود ہے دیکھئے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ بیوی میں تو پردیس جانا چاہتا ہوں اور اب صرف ایک مہینہ کا قیام رہا ہے ۔ مگر جی یوں چاہتا ہے کہ لڑکے کھلا کر جاؤں تو بتلائیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ماہ میں لڑکا بھی ہو جائے اور کھلا بھی لیں۔ ایسی ہی ایک ماہ میں اصلاح ہوگی جیسے لڑکا ہوگا۔ افسوس دنیا کی بعض مقاصد کے واسطے ساری عمر صرف کر دیتے ہیں اور اخروی مقصود کے حصول کیلئے ایک سال بھی خرچ نہیں کرتے۔ فرمایا ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ایک مہینہ آپ یہاں رہیں اور جو کچھ میں کہا کروں وہ سنا کریں اس سے نفع ہوگا اور فرمایا کہ اس پرچہ کو اس بکس میں ڈال دیجئے۔ میں صبح کو دیکھ کر کچھ تعلیم کردوں گا، اپنے کام میں مصروف رہئے ۔ باقی رہے احوال سو اول تو وہ لازم نہیں پھر اس کے واسطے ایک مدت چاہیے اور یہ بھی فرمایا کہ یہاں لوگوں کو موقع بات چیت کا نہیں ملتا تھا۔ بالخصوص ان لوگوں کو جن پر غلبہ ادب ہوتا ہے وہ ہمیشہ رہ جاتے تھے اور جری لوگ سبقت کر کے مجھے پرچہ دے دیتے تھے لوگوں کی پریشانی کی وجہ سے اور آسانی کے واسطے میں نے یہ بکس رکھ دیا ہے کہ ہر شخص بے تکلف اپنے حالات لکھ کر ڈال دے میں جواب دے دیتا ہوں اور اگر کسی کو زبانی سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو وہ یہی لکھ کر بکس میں ڈال دیتا ہے اور میں اس کیلئے خود وقت مقرر کر دیتا ہوں۔

(ملفوظاتِ حکیم الامتؒ : جلد ۱۵ ، ص ۱۶۸ )
 
Top