وہ بوڑھا سچ کہتا تھا۔۔۔!
قاضی صاحب! آپ کو معلوم ہے کہ یہ مغربی ممالک میں دنیا کے امیر ترین لوگ اتنی چیرٹی کیوں کرتے ہیں؟
سکون حاصل کرنے کیلیے؟ میں نے روایتی جواب دے کر قہقہہ لگایا.
انہوں نے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہا: "میں سنجیدہ ہوں."
تو میں بھی پوری طرح متوجہ ہوکر گویا ہوا: اتنی سنجیدگی میں مجھ جیسے طفل مکتب سے سوال کیوں؟ خود ہی بتا دیجیے.
ان کا جواب آیا: یہ دراصل مینیجمنٹ ہے.
کیسی مینیجمنٹ؟
وسائل پر قابض لوگوں کا یہ وطیرہ بڑا پرانا ہے. یہ اپنے اثاثوں میں سے تھوڑی بہت چیرٹی کرکے ان لوگوں کو بغاوت سے روک دیتے ہیں جن کے وسائل پر یہ قبضہ کیے ہوتے ہیں، اور نہ صرف ان کی بغاوت سے پر امن ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے دل میں نرم گوشہ بھی پا لیتے ہیں.
میں ان دنوں فرینچ ریوولیوشن کا مطالعہ کر رہا تھا لیکن پھر بھی ان کے اس موقف سے مطمئن نہ ہوسکا. میرے نزدیک یہ کسی کی نیت پر بلا دلیل شک تھا، جو ایک غلط عمل ہے.
آج اس گفتگو کو کئی سال بیت چکے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں اس ساٹھ سالہ بوڑھے کی بات درست معلوم ہوتی دکھائی دیتی ہے.
وہ لوگ جو تیسری دنیا کے بچوں کو کسی بیماری سے بچاو کے قطرے پلانے پر اربوں ڈالر خرچ رہے ہیں.
وہ لوگ جو اربوں ڈالر مالیت کی این جی اوز چلا رہے ہیں.
وہ لوگ جو افریقہ سے قریب المرگ بچے گود لے کر اور پال کر دنیا کو دکھا رہے ہیں.
وہ لوگ جو سڑک پر پھرتے کتے کے زخم صاف کرکے سوشل میڈیا پر تصاویر چپکا رہے ہیں.
وہ لوگ جو سمندر میں تیرتی مخلوق کے پیٹ سے پلاسٹک کے ذرات نکال کے ویڈیوز اپلوڈ کرکے دیکھنے والوں کے دل بھرا رہے ہیں.
وہی لوگ آج سینکڑوں معصوم بچوں کی شہادتوں پر چپ ہیں.
مجھے شک ہورہا ہے کہ وہ ساٹھ سالہ بوڑھا سچا تھا.
مجھے افسوس ہے کہ شاید میری خوش گمانی ایک سراب تھی۔
طفیل عربی