السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

جملوں کا بوجھ!!

"شکیلہ! ایک گلاس پانی تو لا دو... بہت تھک گیا ہوں میں... اب آرام کروں گا!" ابو نے انتہائی تھکن سے مسہری پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھتے ہوئے کہا۔

میں، جو مٹی کی گاڑی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، اچانک چونک کر ابو کی طرف دیکھا اور پوچھا، "کیوں... کیوں اتنی جلدی تھک جاتے ہیں آپ؟ آپ نے کیا ہی کیا ہے؟"

بچپن کی بے سوچے سمجھے عادت کے تحت میں نے یہ بات کہہ دی۔ ابو سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے بے یقینی سے میری طرف دیکھا، "یہ... یہ کیا کہہ رہے ہو، وائل؟"

"کیا ہوا؟ کیا کہہ دیا میں نے..." میں ہنسا۔ ابو کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے اور وہ خاموش ہو گئے۔ میں بھی کھلونوں میں لگ گیا۔ اس کے بعد کئی دن تک میں سوچتا رہا کہ ابو کی آنکھوں میں آنسو کیوں تھے؟ میں نے کیا کہہ دیا؟

**بیس سال بعد:**

"آمنہ! میں آرام کرنے جا رہا ہوں... بہت تھکا ہوا ہوں..." میں نے کہا۔

آٹھ سالہ افنان کے منہ سے یہ سن کر میں وہیں رک گیا۔ "پاپا، آپ نے کیا ہی کیا ہے جو اتنی جلدی تھک جاتے ہیں؟"

میری طرف سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ "یہ کیا کہہ رہے ہو، افنان؟" میں نے حیرانی سے پوچھا۔

"کیا میں نے ایسا کیا کہا ہے؟" وہ ہنسا۔ میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ یہ جملے میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برس رہے تھے، اور میں سوچ رہا تھا کہ بیس سال بعد افنان بھی ان جملوں کا بوجھ سمجھ جائے گا۔ یہ جملے بھاری ہوں یا نہ ہوں، مگر ایک باپ کی حیثیت سے یہ جملے مجھے اور میرے مرحوم ابو کو بھی بہت بھاری لگے تھے... بہت زیادہ!
 
Top