السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

فتویٰ : جواب شبِ برات کی حقیقت اور اس رات میں رزق اور عمر کی تقسیم کی حقیقت کے متعلق اَحادیث کا بیان

مجلس علمی آفیشل 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر
شبِ براءت کی حقیقت اور اس رات میں رزق اور عمر کی تقسیم کی حقیقت کے متعلق اَحادیث کا بیان

سوال
شبِ براءت کیا ہے؟ اور کیا یہ بات صحیح ہے کہ اس رات رزق کی اور عمر کی تقسیم ہوتی ہے؟ قرآن اور حدیث سے حوالہ دے کر رہنمائی فرمائیں!

جواب:
شعبان کی پندرہویں شب”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کو گناہوں سے بری کر دیا جاتا ہے، تقریبًا دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں:

1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب میں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آرام گاہ پر موجود نہ پایا تو تلاش میں نکلی، دیکھاکہ آپ ﷺ جنت البقیع یعنی قبرستان میں ہیں، پھر مجھ سے فرمایا کہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے“۔

2- دوسری حدیث میں ہے: ”اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہر بچے کا نام لکھ دیا جاتا ہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہر آدمی کا نام لکھ لیاجاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور تمہارا رزق اتارا جاتا ہے۔“

3- ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں: مشرک، والدین کا نافرمان، کینہ پرور، شرابی، قاتل، شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور چغل خور، ان سات افراد کی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی ،جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔

4- حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو، اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے: " کون ہے جو گناہوں کی بخشش کروائے؟
کون ہے جو رزق میں وسعت طلب کرے؟
کون مصیبت زدہ ہے جو مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو؟"

ان احادیثِ کریمہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین رحمہم اللہ کے عمل سے اس رات میں تین کام کرنا ثابت ہے:

1- قبرستان جاکر مردوں کے لیے ایصالِ ثواب اور مغفرت کی دعا کی جائے،لیکن یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شبِ برأت میں جنت البقیع جانا ثابت ہے؛ اس لیے اگر۔ کوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے چلاجائے تو اجر و ثواب کاباعث ہے، لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھاوے، اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ہرسال جانے کو لازم سمجھنا، اس کو شب برأت کے ارکان میں داخل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھنا چاہیے، اس کا نام اتباع اور دین ہے۔

2- اس رات میں نوافل، تلاوت، ذکرواذکار کا اہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتا ہے، لہذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھر میں ادا کرکے اس موقع کو غنیمت جانیں، نوافل کی جماعت اور مخصوص طریقہ اپنانا درست نہیں ہے، یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اور میلے، اجتماع منعقد کرنے کی راتیں نہیں ہیں، بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ سے تعلقات استواربکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ، ان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔

3- دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے، لہذا اس نیت سے روزہ رکھا جائے تو موجب اجروثوب ہوگا۔

باقی اس رات میں پٹاخے بجانا، آتش بازی کرنا اور حلوے کی رسم کا اہتمام کرنا یہ سب خرافات اور اسراف میں شامل ہیں، شیطان ان فضولیات میں انسان کو مشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کر دینا چاہتا ہے اور یہی شیطان کا اصل مقصد ہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلفِ صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: فتاویٰ بینات، جلد : اول، صفحہ: ۵۵۲ تا ۵۵۷، مطبوعہ: مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144108200843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 
Top