السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ

مجلس علمی آفیشل موبائل ایپلیکیشن لانچ کردی گئی ہے ، ڈاؤن لوڈ بٹن پر کلک کریں
  غیر رجسٹرڈ ممبر کو ویب سائٹ دیکھنا محدود ہے

حیاۃ الصحابہ ؓ عرض مترجم

مجلس علمی آفیشل 

انتظامیہ
خادم
رجسٹرڈ ممبر
کتاب: حیاۃ الصحابہ ؓ
عرض مترجم

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَکفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ
حضرات صحابۂ کرام ؓ دین کی بنیاد ہیں ، دین کے اول پھیلانے والے ہیں ، انھوں نے حضور اقدس ﷺ سے دین حاصل کیا اور ہم لوگوں تک پہنچایا۔ یہ وہ مبارک جماعت ہے کہ جس کو اللہ نے اپنے نبی پاک ﷺ اور پیارے رسول کی مصاحبت کے لیے چنا۔ اور اس کی مستحق ہے کہ اس مبارک جماعت کو نمونہ بناکر اس کا اتباع کیا جائے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرمایا کرتے تھے کہ جسے دین کی راہ اختیار کرنی ہے تو ان کی راہ اختیار کرے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ حضرت محمد ﷺ کے صحابہ ہیں ، جو اس امت کا افضل ترین طبقہ ہے، قلوب ان کے پاک تھے، علم ان کا گہرا تھا، تکلف اور تصنع ان میں کالعدم تھا، اللہ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے چنا تھا،اس لیے ان کی فضیلت اور برگزیدگی کو پہچانو، ان کے نقشِ قدم پر چلو اور طاقت بھر ان کے اَخلاق اور ان کی سیرتوں کو مضبوط پکڑو، اس لیے کہ وہی ہدایت کے راستے پر تھے۔
جناب نبی کریم ﷺ کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ ہی کی زندگی معیار ہوسکتی ہے، کیوں کہ یہی وہ مقدس جماعت ہے جس نے براہِ راست مشکوٰۃِ نبوت سے استفادہ کیا اور اس پر آفتابِ نبوت کی شعائیں بلا کسی حائل وحجاب کے بلا واسطہ پڑیں ، ان میں جو ایمان کی حرارت اور نورانی کیفیت تھی وہ بعد والوں کو میسر آنا ممکن نہ تھی، اس لیے قرآن حکیم نے من حیثُ الجماعت اگر کسی پوری کی پوری جماعت کی تقدیس کی ہے تو وہ حضرات صحابۂ کرام ہی کی جماعت ہے، اس لیے کہ اس کو مجموعی طور پر راضی ومرْضِی اور راشد ومُرْشَد فرمایا ہے۔ اسی لیے استمرار کے ساتھ امتِ مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات صحابۂ کرام کل کے کل عدول اور مُتقن ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے۔ ان کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے حضرات صحابہ کی مقدس جماعت کمالات نبوت کی آئینہ دار اور اوصافِ رسالت کی مظہر اتم ہے۔ حضور ﷺ کی عادات کریمہ، خصائلِ حمیدہ، شمائلِ فاضلہ، اخلاقِ عظیمہ اور شریعت کے تمام مسائل ودلائل اور حقائق وآداب کی علماً اور عملاً سچی ترجمان ہے۔ اس لیے ان کی راہ کی اتباع ضروری ہے جو امت مسلمہ کو ہر گمراہی سے بچا سکتی ہے۔
حضرت مولانا محمد الیاس کی نانی محترمہ اُمی بی، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کی رابعہ سیرت صاحب زادی تھیں اور حضرت مولانا نے انھیں کی گود میں پرورش پائی۔ موصوفہ کی آپ پر حد درجہ شفقت تھی۔ فرمایا کرتی تھیں کہ الیاس! تجھ سے صحابہ کی خوشبو آتی ہے۔ کبھی شفقت سے پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرماتیں کہ کیا بات ہے کہ تیرے ساتھ مجھے صحابہ کی سی صورتیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں ۔ اس کے ما سواحضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب مولوی الیاس کو دیکھتاہوں تو مجھے صحابہ یاد آجاتے ہیں ۔
حضرت مولانا محمد منظور نعمانی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمْ کا بیان ہے کہ ہم اور ہمارے بعض دوسرے صاحبِ بصیرت احباب اس بارے میں ہم خیال ویک زبان تھے کہ اس زمانہ میں ایسی شخصیت اللہ کی قدرت کی نشانی اور رسول اللہ ﷺ کا ایک معجزہ ہے جس کو دین کے مؤثر اور زندہ جاوید ہونے کے ثبوت کے طور پر اور صحابۂ کرام کے عشق اور خیر القرون کے دینی جنون اور بے قراری اور اُس دور کی خصوصیات کا ایک اندازہ کرنے کے لیے اس زمانہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔
غالباً یہی وجہ تھی کہ حضرت مولانا محمد الیاس حضرات صحابۂ کرام کے واقعات پڑھوا کر سنا کرتے اور ان سے کیف وسرور کی کسی دوسری دنیا میں مسْتَغْرق ہو جاتے۔ انھوں نے اپنے فخر زمانہ بھتیجے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے اردو میں ایک کتاب ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ لکھوائی جو حضرات صحابہ کی مبارک زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف عنوانات کے تحت ترتیب دی گئی ہے اور جس کی عند اللہ مقبولیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، جاپانی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں ۔
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ؒ کو بھی سیرت نبوی اور حالاتِ صحابہ سے عشق وشغف ورثہ میں ملا۔ بچپن ہی سے وہ حضرات صحابۂ کرام کے حالات وواقعات کا مطالعہ کیا کرتے۔ چنانچہ بچپن میں ’’صمْصَامُ الاسلام‘‘ اور ’’محارباتِ صحابہ‘‘ کے پڑھنے اور سنانے سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ حضرت مولانا محمد الیاس کی حیات میں عشاء کی نماز کے بعد سیرت کی کتابوں کے سنانے کی عظیم خدمت پر مولانا محمد یوسف صاحب ہی مامور تھے۔ حضرت کے وصال کے بعد بھی تاحیات آپ کا یہ معمول جاری رہا۔ چنانچہ بارہا اس کا مشاہدہ ہوا کہ جس وقت حضرت مولانا محمد یوسف صاحب ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ پڑھتے اور ان مبارک واقعات کی تشریح فرماتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ گویا صحابۂ کرام کو اپنی آنکھوں سے دیکھاہے یا حضرت ان کے گھر کے مخصوص لوگوں میں سے ہیں اور یہ سب واقعات حضرت کے سامنے گزرے ہیں ۔
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ چاہتے تھے کہ حضرات صحابہ کی سیرت کو دعوت کے طرزپر پیش کیا جائے۔ چنانچہ اس کام کے لیے انھوں نے اپنے لائق فرزند حضرت مولانا محمد یوسف صاحب نَوَّر اللّٰہُ مَرْقَدَہٗ ہی کا انتخاب کیا اور ’’أماني الأحبار‘‘ کا کام درمیان میں رکوا کر اس کتاب کو ترتیب دلانا شروع کردیا اور بالآخر اس کانام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی دامت برکاتہم کی تجویز پر ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ رکھا گیا۔ اہل علم کی رائے ہے کہ سیرت ِصحابہ پر آج تک ایسی جامع اور مانع کتاب مِنَصَّہ شہود پر نہیں آئی۔
گزشتہ چند سالوں سے مخدوم گرامی حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری مدظلہم بندہ سے تقاضا فرمارہے تھے کہ اس مبارک کتاب کا اردو میں ترجمہ کر ڈالو۔ مگر یہ نا کارہ اپنی کم مائیگی، بے بضاعتی، نا تجربہ کاری، تصنیف وتالیف سے عدم مناسبت۔ نیز رائے ونڈ کی مسجد ومدرسہ کی دعوتی وتدریسی مصروفیات کی وجہ سے اس خدمت کی ہمت نہ کر سکا۔ لیکن رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع نومبر ء کے بعد دہلی واپسی کے موقع پر لاہور ہوائی اڈہ پر حضرت جی دامت برکاتہم العالیہ نے محترم الحاج محمد عبد الوہاب صاحب سے صراحتاً حکم فرمایا کہ احسان ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ کا اردو ترجمہ کرے۔ چنانچہ موصوف نے کہا کہ حضرت جی کے حکم وارشاد کے بعد اب انکار کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ بندہ یہ سن کر شَشْدر رہ گیا اور اپنی نا اہلی کی وجہ سے بہت بوجھ محسوس ہوا اور طبیعت آمادہ نہیں ہو رہی تھی، مگر اِمتثالِ امر میں اس امید پر قلم اُٹھا لیا کہ جن مبارک نفوس کے حکم اور تقاضے سے یہ کام شروع کیا جا رہا ہے ان کی سرپرستی، توجہ اور دعا کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ تکمیل ہو جائے گی۔ چنانچہ بنامِ خدا ؍نومبر ء سے ترجمہ شروع کیا۔
ابتداء ًا ’’حیاۃ الصحابہ‘‘، مطبوعہ حیدر آباد دکن پیشِ نظر رہی، لیکن ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ مرتبہ مولانا محمد الیاس صاحب بارہ بنکوی (مقیم بنگلہ والی مسجد، بستی حضرت نظام الدین دہلی) کی اشاعت کے بعد مؤخر الذکر کو اساس بنا کر ترجمہ کی تکمیل کی، ترجمہ میں سادہ اور عام فہم زبان کا بطور خاص اہتمام والتزام کیا گیا ہے تاکہ دینی اصطلاحات سے نا واقف عمومی استعداد کے اہلِ ایمان بھی بے تکلف استفادہ کر سکیں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اس ترجمہ کو قبول فرما کر امت مسلمہ کے لیے مفید بنائے، اور حضور اکرم ﷺ والی عالی محنت پر امت کے پڑجانے اور عملاً حضرات صحابۂ کرام والی زندگی اختیار کرنے کے لیے اس کتاب کو ذریعۂ قویہ فرمائے، آمین۔
مترجم، معاونین ترجمہ اور کتابت وطباعت میں اعانت کرنے والے تمام حضرات کے لیے دعائے خیر کی درخواست ہے۔
محمد احسان الحق
مدرسہ عربیہ رائے ونڈ لاہور۔ پاکستان
؍ رجب ھ ( ؍جنوری ء)
 
آخری بار ترمیم:
Top